لاہور(سچ خبریں) میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے وزیر اعلیٰ پنجاب کے نامزد کردہ امیدوار چوہدری پرویز الہٰی کا کہنا تھا کہ پنجاب اسمبلی میں پیدا شدہ کشیدہ صورتحال کے دوران ڈپٹی اسپیکر کے پاس کوئی اور آپشن اور راستہ نہیں تھا کہ وہ انتخابی کارروائی کو ملتوی کرتے، اب نئے شیڈول کے تحت نئے قائد ایوان کا الیکشن 6 اپریل کو ہوگا اور دودھ کا دودھ، پانی کا پانی ہوجائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ٹکٹ پر رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے تھے جب وہ اپوزیشن کے لوگوں کے ساتھ بیٹھے تو ہمارے لوگوں نے ان سے کہا کہ یہ آپ کی جگہ نہیں ہے، آپ اس طرف آئیں۔
انہوں نے کہا کہ جب پی ٹی آئی کے اراکین نے ان لوگوں سے ایوان میں بات کی جس کی انہیں اجازت ہے تو جب وہ لوگ واپس آنے لگے تو دوسرے لوگوں نے ان پر حملہ کردیا، جس کے بعد ایوان میں ایک لڑائی کی صورتحال پیدا ہوگئی جو آپ نے دیکھی جس کے بعد ڈپٹی اسپیکر کے پاس کارروائی ملتوی کرنے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں تھا۔
پرویز الہٰی کا کہنا تھا کہ اب وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے لیے پولنگ 6 اپریل کو ہوگی، 6 اپریل بروز بدھ صبح ساڑھے 11 بجے ایوان میں نئے قائد ایوان کا انتخاب ہوگا۔
صحافیوں کے اس سوال پر کہ اپوزیشن کا دعویٰ تھا کہ اسے 200 سے زیادہ اراکین اسمبلی کی حمایت حاصل تھی جبکہ آپ کے پاس 170 کے قریب ووٹ تھے، اس لیے یہ تمام صورتحال پیدا ہوئی، چوہدری پرویز الہٰی کا کہنا تھا کہ ہمیں ایوان میں اکثریت حاصل تھی، ہمیں ضرورت ہی نہیں تھی کسی ایسی چیز کی۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے اراکین نے شور شرابا کیا، جس کے بعد ایوان میں ایسی صورتحال پیدا ہوئی جس کے باعث ایوان کی کارروائی ملتوی کرنی پڑی، اب 6 تاریخ کو صورتحال واضح ہوجائے گی۔
چوہدری محمد سرور سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’میرا چوہدری محمد سرور سے بہت پرانا اور اچھا تعلق ہے، وہ میرے بھائی ہیں، ان کے بارے میں کوئی بات نہیں کر سکتا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ چوہدری سرور میرے بارے میں کچھ بھی کہتے رہیں، میں ان کے کسی بیان پر کوئی تبصرہ نہیں کروں گا، مجھے نہیں پتا ان کا مستقبل کیا ہوگا، چوہدری محمد سرور نے ساڑھے تین سال پنجاب کی گورنرشپ کے مزے لیے ہیں تو اب اور کیا چاہیے۔
خیال رہے کہ سابق گورنر پنجاب چوہدری سرور نے پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ یہ فیصلہ پی ٹی آئی کے 184 اراکین اسمبلی کے منہ پر طمانچہ ہے کہ ایک ایسے شخص کو وزیر اعلیٰ پنجاب نامزد کیا گیا جو ساڑھے 3 سال سے تحریک انصاف کو بلیک میل کرتا رہا، اس نے اپنے انٹرویوز میں وزیر اعظم کا تمسخر اڑایا، وزیر اعظم اس شخص سے بلیک میل ہوئے جس کے پاس اسمبلی میں 9 ایم پی اے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم سے علیحدگی میں ملاقات کی اور ان سے کہا کہ پرویز الہٰی ہمیں 3 سال سے بلیک میل کر رہا ہے، میرا دل نہیں کرتا اسے سپورٹ کرنے کو لیکن آپ کے کہنے پر میں یہ بھی کرنے کو تیار ہوں، میں نے رات کے اندھیرے میں اس پر دستخط کیے اور پھر رات کے اندھیرے میں مجھے ہٹا دیا گیا۔
پرویز الہٰی کا کہنا تھا کہ اب عبدالعلیم خان اور جہانگیر خان ترین سمیت سب ہی فارغ ہوگئے، علیم خان اب آرام سے بیٹھ کر وہ کریں جو کر رہے تھے، جہانگیر خان ترین لندن میں رہ رہے ہیں، وہ وہاں خوش رہیں۔
اس موقع پر پنجاب اسمبلی میں پارٹی امیدوار کو حاصل حمایت سے متعلق سوال کے جواب میں پی ٹی آئی کے رہنما راجا بشارت کا کہنا تھا کہ آپ پنجاب اسمبلی کی ویب سائٹ پر دیکھ سکتے ہیں کس پارٹی کو کتنے اراکین کی حمایت ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان مسلم لیگ (ن) اپنے ووٹ کو عزت کے بیانیے پر قائم ہے تو پھر پنجاب اسمبلی میں ہماری اکثریت واضح ہے، اگر (ن) لیگ اپنے بیانیے سے پیچھے ہٹتی ہے تو نمبر گیم کا سوال اٹھتا ہے اور لوگوں میں اشتعال پیدا ہوتا ہے۔
راجا بشارت کا کہنا تھا کہ اگر (ن) لیگ کسی دوسری پارٹی کے مینڈیٹ کو غصب کرنے کی کوشش کرے گی، جب ایک پارٹی کے منتخب اراکین کو آپ گھیرے میں لے کر بیٹھیں گے تو پھر لازمی طور پر ایسی کشیدہ صورتحال پیدا ہوگی جیسا کہ آج آپ نے ایوان میں دیکھی۔
واضح رہے کہ وزیر اعلیٰ کے انتخابات کے لیے پنجاب اسمبلی کا منعقد کیے جانے والا اجلاس بغیر ووٹنگ ملتوی کردیا گیا تھا۔
پنجاب اسمبلی کے آج ہونے والے اجلاس کا ون پوائنٹ ایجنڈا وزیر اعلیٰ کا انتخاب تھا، حمزہ شہباز اور چوہدری پرویز الہٰی وزارتِ اعلیٰ کے لیے امیدوار ہیں۔
گھنٹی بجنے پر اجلاس شروع ہونے پر ایوان میں ہنگامہ آرائی شروع ہوگئی تھی، اسپیکر کی جانب سے ہنگامہ آرائی پر اجلاس 6 اپریل تک ملتوی کردیا گیا تھا۔