نواز شریف کا نام لیے بغیر میاں جاوید لطیف نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو 2000، 2008 اور 2018 کے انتخابات سے باہر رکھا گیا تھا، ہم نے یہ سب برداشت کیا لیکن اب اگر ہماری قیادت کو، نواز شریف کو 2023 کے انتخابی دوڑ سے باہر رکھنے کی دوبارہ کوشش کی جائے گی تو پھر ان نتائج کو کون قبول کرے گا؟
انہوں نے کہا کہ 2023 میں نواز شریف کے بغیر الیکشن ہوئے تو خونی لکیر کھینچ دی جائے گی جسے کوئی مٹا نہیں سکے گا۔
انہوں نے کہا کہ صرف ایک شخص کی انا کی خاطر خراب معاشی اور سیکیورٹی صورتحال کے باوجود انتخابات کے انعقاد پر ججوں کا اصرار حیرت کن ہے۔
انہوں نے سوال کیا کہ قانون اور آئین کی بالادستی پر لیکچر دینے والے بتائیں کہ مارشل لا کو آئینی کور کس نے دیا؟ کیا اس کی ذمہ دار یہ پارلیمنٹ تھی یا سپریم کورٹ میں بیٹھے جج؟
جاوید لطیف نے یاد دہانی کرکہ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے حال ہی میں اعتراف کیا تھا کہ انہیں ایک ادارے کے سابق سربراہ نے مجبور کیا کہ وہ سپریم کورٹ کے 2 جونیئر ججوں کی ترقی کے حق میں ووٹ دیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے ماضی میں جونیئر ججوں کی تعیناتی کے لیے مسلم لیگ (ن) کی حکومت پر دباؤ ڈالا اور توسیع حاصل کرنے کے لیے اپنی تاریخ پیدائش کو تبدیل کرنے کی کوشش بھی کی۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس شوکت صدیقی نے کھلے عام انکشاف کیا تھا کہ بینچ کیسے بنائے گئے تھے اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ فیض حمید نے ان سے کیسے ملاقات کی تھی لیکن انہیں ہٹا دیا گیا تھا۔
ان سیاسی الزام تراشیوں کے درمیان پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں 8 پرائیویٹ ممبرز کے بل پیش کیے گئے، اسپیکر قوبلی اسمبی راجا پرویز اشرف نے یہ تمام بلز متعلقہ کمیٹیوں کو بھجوا دیے۔
ان بلز میں اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری اسٹیٹ کونسلز ریمونریشن بل، منشیات (ترمیمی) بل؛ لیگل پریکٹیشنرز اور بار کونسلز (ترمیمی) بل، آئی سی ٹی کریمنل پراسیکیوشن سروس بل، الائیڈ ہیلتھ پروفیشنلز کونسل (ترمیمی) بل اور پاکستان ریڈ کریسنٹ سوسائٹی بل شامل ہیں۔
اسپیکر قومی اسمبلی نے ایوان کی کارروائی آج بدھ تک ملتوی کر دی کیونکہ حکومت نے عدلیہ کے ساتھ جاری کشمکش کے پیش نظر اجلاس جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔