لاہور: (سچ خبریں) سابق وزیراعظم اور سربراہ مسلم لیگ (ن) نواز شریف نے جاتی امرا میں 4 برس بعد پہلی بار باضابطہ طور پر پارٹی کے اہم اجلاس کی صدارت کی اور پارٹی کو دوبارہ مسندِ اقتدار تک پہنچانے کے لیے لائحہ عمل طے کیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی جب اسلام آباد ہائیکورٹ نے نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیلیں بحال کردیں اور نگران حکومت پنجاب کی جانب سے العزیزیہ کیس میں ان کی سزا معطل کرنے کے فیصلے کی توثیق کی ہے۔
جاتی امرا میں ہونے والے اجلاس میں پارٹی کی مرکزی قیادت نے شرکت کی، اجلاس میں دیگر جماعتوں بالخصوص پیپلزپارٹی کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کے تعلقات پر تبادلہ خیال کیا گیا جس کا مقصد جنوری میں ہونے والے ممکنہ انتخابات سے قبل انہیں راضی کرنا تھا۔
اجلاس میں نواز شریف کی ’ری لانچنگ‘ پر بھی بات کی گئی جو پارٹی میں نئی جان ڈالنے کے لیے نومبر میں تمام صوبوں کا دورہ کریں گے۔
مسلم لیگ (ن) بدلتے وقت کے مطابق نیا منشور لانے کا بھی منصوبہ بنا رہی ہے، آئندہ انتخابات کے لیے ممکنہ امیدواروں سے 10 نومبر تک درخواستیں طلب کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔
اجلاس کے بعد صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ جنوری 2024 کے آخر میں انتخابات ہوجائیں گے، پارٹی بدھ (آج) سے 10 نومبر تک ملک بھر میں امیدواروں سے درخواستیں وصول کرنا شروع کر دے گی اور آئندہ انتخابات کے لیے ٹکٹوں کی تقسیم کے لیے مرکزی اور صوبائی الیکشن بورڈز قائم کیے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ سینیٹر عرفان صدیقی کی سربراہی میں ایک منشور کمیٹی بھی قائم کر دی گئی ہے، یہ کمیٹی عدالتی نظام اور معیشت پر توجہ دے گی۔
ان سے سوال کیا گیا کہ کیا سیاستدانوں کے فیصلے کوئی اور کرتا ہے تو انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کسی (اسٹیبلشمنٹ) کی طرف نہیں دیکھ رہی کیونکہ وہ اپنے فیصلے خود کرتی ہے۔
دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک ڈویژن بینچ نے نواز شریف کی اُن درخواستوں پر تفصیلی فیصلہ جاری کیا جن میں ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کیس اور العزیزیہ اسٹیل ملز کیس میں سزا کے خلاف اپیلیں بحال کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔
چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل بینچ نے درخواست نمٹا دی اور العزیزیہ ریفرنس میں ان کی سزا کو معطل کرنے کے حکومت پنجاب کے فیصلے کی بھی توثیق کی، اس کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کو 8 ہفتوں کی ضمانت دی ہے اور ان سے ضمانت میں توسیع کے لیے حکومتِ پنجاب سے رجوع کرنے کو کہا ہے۔
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے 23 جون 2021 کو دونوں کیسز میں نواز شریف کی اپیلیں خارج کر دی تھیں، گزشتہ روز جاری ہونے والے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے میں صوبائی حکومت کی جانب سے سزا کو معطل کرنے کے لیے کیے گئے اقدامات کی بھی وضاحت کی گئی۔
اس میں کہا گیا ہے کہ 21 اکتوبر کو درخواست گزار کے وکلا نے حکومتِ پنجاب کے سامنے طبی بنیادوں پر سی آر پی سی کی دفعہ 401 (2) کے تحت مذکورہ سزا کو معطل کرنے کی درخواست دائر کی تھی۔
اس میں کہا گیا کہ نگران وزیر اعلیٰ پنجاب نے 22 اکتوبر کو ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جسے اس معاملے پر غور کرنے اور نگران صوبائی کابینہ کو غور کے لیے سفارشات پیش کرنے کا مینڈیٹ دیا گیا تھا۔
مذکورہ کمیٹی نے سفارش کی کہ نگران کابینہ، سیکشن 401 (2) سی آر پی سی کے تحت درخواست کو قبول کرتے ہوئے ریفرنس میں درخواست گزار کو دی گئی سزا پر عمل درآمد کو معطل کر سکتی ہے۔
نگران وزیراعلیٰ نے مذکورہ سفارشات کی منظوری دی اور ہدایت کی کہ انہیں سرکولیشن کے ذریعے نگران صوبائی کابینہ کے سامنے رکھا جائے۔
یہ سفارشات 23 اکتوبر کی سمری کے ذریعے کابینہ کے سامنے رکھی گئی تھیں، جسے بعد میں منظور کر لیا گیا۔
عدالت نے نیب پراسیکیوٹر جنرل کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ نیب کے وکیل نے واضح الفاظ میں کہا کہ نیب کو درخواست گزار کی گرفتاری مطلوب نہیں ہے اور عدالت کو ان کی اپیل بحالی کی استدعا منظور کرنی چاہیے۔
بعد ازاں عدالت نے فیصلہ سنایا کہ پراسیکیوٹر جنرل اور نیب نے اپیل بحالی کی درخواستوں کی مخالفت نہیں کی لہٰذا عدالت نے نواز شریف کی اپیل بحالی کی درخواست منظور کرلی۔
سابق وزیر قانون بیرسٹر ظفر اللہ خان کے مطابق ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کو دی گئی عبوری ریلیف بھی اپیلوں کی بحالی کے ساتھ بحال کر دی گئی۔
انہوں نے کہا کہ حکومت پنجاب نے سزا معطل کرنے کے لیے جو طریقہ اختیار کیا اس میں عدالت کو کوئی بے ضابطگی نظر نہیں آئی، اس لیے یہ ضمانت منظور کرنے کے مترادف ہے۔