صدر مملکت نے کہا کہ آئین سپریم کورٹ کو اپیل، ایڈوائزری، نظرثانی اور بنیادی سماعت کا اختیار دیتا ہے اور مجوزہ بل آرٹیکل 184 (3) عدالت کے ابتدائی اختیار سماعت سے متعلق ہے۔
انہوں نے کہا کہ مجوزہ بل کا مقصد ابتدائی اختیار سماعت استعمال کرنے اور اپیل کرنے کا طریقہ فراہم کرنا ہے، یہ خیال قابل تعریف ہو سکتا ہے مگر کیا یہ مقصد آئین کی دفعات میں ترمیم کے بغیر حاصل کیا جا سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سوال تسلیم شدہ قانون تو یہ ہے کہ آئینی دفعات میں ایک عام قانون سازی کے ذریعے ترمیم نہیں کی جاسکتی، آئین ایک اعلیٰ قانون ہے، قوانین کا ماخذ ہے، آئین کوئی عام قانون نہیں بلکہ بنیادی اصولوں، اعلیٰ قانون اور دیگر قوانین سے بالاتر قانون کا مجسمہ ہے۔
صدر مملکت نے کہا کہ آرٹیکل 191 سپریم کورٹ کو عدالتی کارروائی اور طریقہ کار ریگولیٹ کرنے کے لیے قوانین بنانے کا اختیار دیتا ہے، آئین کی ان دفعات کے تحت سپریم کورٹ رولز 1980 بنائے گئے جن کی توثیق خود آئین نے کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ رولز 1980 پر اسی وقت سے عمل درآمد کیا جا رہا ہے اور جانچ شدہ قواعد میں چھیڑ چھاڑ عدالت کی اندرونی کارروائی، خود مختاری اور آزادی میں مداخلت کے مترادف ہو سکتی ہے۔
صدر کا کہنا تھا کہ مملکت ریاست کے تین ستونوں کے دائرہ اختیار، طاقت اور کردار کی وضاحت آئین نے ہی کر دی ہے، آرٹیکل 67 کے تحت پارلیمان کو آئین کے تابع رہتے ہوئے اپنے طریقہ کار اور کاروبار کو منظم کرنے کے لیے قواعد بنانے کا اختیار حاصل ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ آرٹیکل 191 کے تحت آئین اور قانون کے تابع رہتے ہوئے سپریم کورٹ اپنی کارروائی اور طریقہ کار کو ریگولیٹ کرنے کے قواعد بنا سکتی ہے، آرٹیکل 67 اور 191 ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔
صدر مملکت نے مؤقف اپنایا کہ آرٹیکل 67 اور 191 قواعد بنانے کے لیے دونوں کی خودمختاری کو تسلیم کرتے ہیں اور اداروں کو اختیار میں مداخلت سے منع کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی کو مکمل تحفظ دینے کے لیےآرٹیکل 191 کو دستور میں شامل کیا گیا اور اسی آرٹیکل کے تحت سپریم کورٹ کو پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار سے باہر رکھا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کا قانون سازی کا اختیار بھی آئین سے ہی اخذ شدہ ہے، آرٹیکل 70 وفاقی قانون سازی کی فہرست میں شامل کسی بھی معاملے پر بل پیش کرنے اور منظوری سے متعلق ہے۔
صدر مملکت نے کہا کہ آرٹیکل 142-اے کے تحت پارلیمنٹ وفاقی قانون سازی کی فہرست میں کسی بھی معاملے پر قانون بنا سکتی ہے، فورتھ شیڈول کے تحت پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے علاوہ تمام عدالتوں کے دائرہ اختیار اور اختیارات کے حوالے سے قانون سازی کا اختیار ہے۔
ایوان صدر کے بیان کے مطابق انہوں نے کہا فورتھ شیڈول کے تحت سپریم کورٹ کو خاص طور پر پارلیمان کے قانون سازی کے اختیار سے خارج کیا گیا ہے۔
صدر مملکت نے مجوزہ بل واپس کرتے ہوئے کہا کہ بل بنیادی طور پر پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار سے باہر ہے اور بل کے ان پہلوؤں پر مناسب غور کرنے کی ضرورت ہے۔
خیال رہے کہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظوری کے بعد 30 مارچ کو باقاعدہ توثیق کے لیے صدر مملکت کو ارسال کردیا تھا۔
سینیٹ میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کے حق میں 60 اور مخالفت میں 19 ووٹ آئے تھے جبکہ بل کی شق وار منظوری کے دوران پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)سمیت اپوزیشن ارکان نے بل کی کاپیاں پھاڑی اور احتجاج کیا اور شور شرابا کیا تھا۔
قومی اسمبلی سے مذکورہ بل 29 مارچ کو منظور ہوا تھا جہاں حزب اختلاف اور حکومتی اراکین نے اس بل کی بھرپور حمایت کی تھی جبکہ چند آزاد اراکین نے اسے عدلیہ پر قدغن قرار دیا تھا۔
وفاقی کابینہ کی جانب سے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کی منظوری 28 مارچ کو دی گئی تھی تاہم قومی اسمبلی سے متعدد ترامیم کے بعد منظور کرلیا گیا تھا۔