اسلام آباد: (سچ خبریں) پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی بحیثیت پارٹی رجسٹریشن منسوخ کرنے کے لیے ریفرنس پر غور کر رہے ہیں۔
سماجی رابطے کے ویب سائٹ پر جاری بیان میں فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ الیکشن ایکٹ کی صریحاْ خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک مفرور ملزم اس پارٹی کے فیصلے کر رہا ہے۔
فواد چوہدری نے مزید کہا کہ اور پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اعلان کیا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کو تسلیم نہیں کرتے، یہ اعلان بذات خود آئین کے آرٹیکل 6 کی زد میں ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز (یکم اپریل) وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی زیر سربراہی تین رکنی بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے ملک میں ایک ہی دن انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کیا تھا۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ الیکشن ایکٹ کی صریحاْ خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک مفرور ملزم اس پارٹی کے فیصلے کر رہا ہے۔
اس سے ایک روز قبل 31 مارچ کو مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے خیبر پختونخوا اور پنجاب میں انتخابات کے التوا کے خلاف تحریک انصاف کی درخواست پر سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہی بینچوں کے فیصلوں نے تباہی کے دہانے پر لاکر کھڑا کردیا ہے، ایسے فیصلے نہیں ہونے دینے چاہئیں جو ملک و قوم کو تباہ کردے، ہمیں بینچ ہی قبول نہیں ہے تو اس کا فیصلہ کیسے قبول ہوگا۔
سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی بحیثیت پارٹی رجسٹریشن منسوخ کرنے کے لیے ریفرنس پر غور کر رہے ہیں
دوسری جانب پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا کہ یہ (حکومت) وہ کر رہے ہیں جو اس ملک کے ساتھ ماضی میں نہیں ہوا، اور جو انہوں نے کل فیصلہ کیا ہے یہ اتنی بڑی تاریخی غلطی ہوگی جس کا ازالہ مشکل ہو جائے گا۔
کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف اسمبلی کے فلور پر کہتے ہیں کہ تبادلۂ خیال کرنا چاہیے اور مذاکرات کے ذریعے ملک کو اس سیاسی کشمکش سے آزاد کرنا چاہیے، لیکن کل کے اعلامیے میں کہا گیا کہ اب عمران خان یا پی ٹی آئی سے کوئی گفتگو نہیں ہوگی، یہ بالکل متضاد بات کی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک طرف کہتے ہیں کہ اسمبلیوں میں آکر کردار ادا کرو اور دوسری طرف جب ہم اپنے مقصد کے حصول یعنی نئے انتخابات کے حصول کی کوشش میں قومی اسمبلی میں جانے پر آمادگی کا اظہار کرتے ہیں تو پیپلز پارٹی کے اسپیکر راجا پرویز اشرف جو آئے دن دعوت دیا کرتے تھے وہ اب راستے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں، اس حوالے سے ہائی کورٹ میں مقدمہ چل رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہ 6 اپریل کی تاریخ ہے، امید ہے کہ ہارئی کورٹ فیصلہ فرمائے گی، جیسا الیکشن کمیشن کا نوٹی فکیشن مسترد ہوا، میں سمجھتا ہوں کہ اسپیکر قومی اسمبلی کو بھی واضح پیغام جائے گا اور تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی میں جاکر اپنا کردار ادا کرسکیں گے۔
پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین نے مزید کہا کہ سیاسی جماعتوں کا امتحان ہے کیونکہ کل ایک بہت اہم کیس کی پیش رفت ہونی ہے، سپریم کورٹ نے ہماری پٹیشن پر اپنی رائے قائم کرنی ہے، ہفتے کو اٹارنی جنرل کو بلایا گیا، وہ کوئی ٹھوس جواب نہ دے سکے، الیکشن کمیشن نے جو عذر پیش کیے تھے، وسائل اور سیکیورٹی اہلکاروں کی عدم دستیابی پر ذکر ہوا، عدالت نے فیصلہ کیا کہ پیر کو سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری خارجہ کو بلاؤں گا، ان سے بھی رائے لوں گا۔
ان کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں کا اتفاق ہے کہ آئین کی تشریح کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس ہے، ہماری پٹیشن آئین کی تشریح ہے، ہم سپریم کورٹ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں کہ ہماری نظر میں آئین میں کوئی ابہام نہیں ہے اور آئین کہتا ہے کہ اگر اسمبلیاں قانونی اور آئینی طریقے سے تحلیل ہوں تو 90 روز کے اندر ہونے چاہئیں، اس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آچکا جسے الیکشن کمیشن تسلیم بھی کرچکا، تسلیم کیا تو شیڈول دیا، پھر کاغذات نامزدگی منگوائے، جس میں پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) نے حصہ لیا۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آج یہ الیکشن کی مخالفت کر رہے ہیں کہ بیک وقت انتخابات ہونے چاہئیں، تو پھر نواز شریف، شہباز شریف، آصف علی زرداری آپ میں اتنا حوصلہ ہونا چاہیے تھا کہ پھر اپنے امیدواروں کے کاغذات داخل نہ کرواتے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس کے بعد جانچ پڑتال کا اگلا مرحلہ بھی مکمل ہو گیا، اب تو انتخابی نشانات اور کاغذات نامزدگی واپسی کا فیصلہ ہونا تھا، پھر ہچکچاہٹ، گھبراہٹ اور عمران خان کا خوف طاری ہو رہا ہے اور الیکشن سے فرار کے مختلف حیلے بہانے تلاش کیے جارہے ہیں۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ الیکشن میں تاخیر کے لیے ہر حربہ استعمال کیا گیا، اسمبلی میں قانون سازی کی گئی، اراکین اسمبلی کا کام ہے قانون سازی کرنا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس کی ٹائمنگ کیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنا ہے کہ وہ صرف قانون سازی سے ہوسکتا ہے یا اس کے لیے آئین میں ترمیم درکار ہے، تحریک انصاف کے بہت سے وکلا کی رائے میں جو قانون وہ لانا چاہ رہے ہیں، اسی طرح صدر مملکت بھی قومی اور سینیٹ سے پاس کردہ بل پر وکلا سے رائے لے رہے ہیں کہ انہیں کیا پوزیشن لینی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ وہ آئینی ترمیم کے بغیر ممکن نہیں ہے، آئینی ترمیم کے ذریعے شائد سپریم کورٹ کے اختیارات محدود کرسکو لیکن آئینی ترمیم کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے، مت بھولیے کہ پاکستان کے آئین کے مطابق مقننہ کا اپنا کردار ہے، ایگزیکٹو کا اپنا کردار ہے اور عدلیہ کا اپنا مقام ہے، آزاد عدلیہ کے بغیر خودمختار جمہوریت ہو ہی نہیں سکتی۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آج اسی ادارے پر حملہ کیا جا رہا اور 1997 کی تاریخ دہرانے کی کوشش کی جارہی ہے، اس کے برعکس آج پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو فیصلہ کرنا ہوگا، وہ جماعتیں جو آئین کے ساتھ کھڑی ہوں گی ان کو ایک طرف صف آرا ہونا ہوگا، وہ جماعتیں جو آئین سے منہ موڑنا چاہتی ہیں، انہیں اپنے ارادوں کا کھل کر اظہار کرنا ہوگا، خاموشی سے کام نہیں چلے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی نے جو مصلحتاً خاموشی اختیار کی ہے، یہ ناکافی ہے، یا پیپلز پارٹی آئین کے ساتھ کھڑی ہو یا پیپلزپارٹی آئین کو ایبروگیٹ کرنے کا اعلان کردے، آدھا تیتر، آدھا بٹیر نہیں ہوسکتا۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کو اٹھارویں ترمیم پر فخر ہے لیکن بھٹو کے نواسے نے بھٹو کے آئین پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جو بھٹو نے بنایا تھا آصف زرداری نے اسے تباہ کر دیا ہے۔
سابق وفاقی وزیر نے بتایا کہ کس طرح مسلم لیگ (ن) نے آئین پر ’حملہ‘ کرنے کا فیصلہ کیا اور پارٹی رہنماؤں نے ’سپریم کورٹ پر دباؤ ڈالنا‘ شروع کر دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ 48 گھنٹوں میں سوشل میڈیا پوسٹس کو دیکھیں حتیٰ کہ گزشتہ روز رانا ثنااللہ نے ججز پر حملہ کرنے کی کوشش کی۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما نے مزید کہا کہ دوسرا امتحان قانونی برادری کا ہے، میں پاکستان کے وکلا کو خراج تحسین پیش کرنا چاہوں گا، جب بھی آئین پر ضرب لگانے کی کوشش کی گئی ہمارے وکلا نے اپنے سیاسی دھڑے بندیوں سے بالاتر ہو کر آئین کی حفاظت کی ہے، ان سے اپیل ہے کہ وہ ایک مرتبہ پھر تاریخی کردار ادا کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے فیصلہ کیا ہے کہ پی ٹی آئی، آئین کے ساتھ کھڑی ہوگی اور آئین کا دفاع کرے گی۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ یہ (حکومت) وہ کر رہے ہیں جو اس ملک کے ساتھ ماضی میں نہیں ہوا، اور جو انہوں نے کل فیصلہ کیا ہے کہ یہ اتنی بڑی تاریخی غلطی ہوگی جس کا ازالہ مشکل ہو جائے گا۔