(سچ خبریں) رواں ہفتے کے آغاز میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک غیر پابند قرار داد منظور کی، جس میں یوکرین سے تمام روسی فوجیوں کے فوری انخلا کا مطالبہ کیا گیا۔پاکستان نے روس کے خلاف قرارداد کی ووٹنگ میں شرکت نہی کی تھی پاکستانی دفتر خارجہ نے رواں ہفتے کے آغاز میں 23 سفیروں کی جانب سے جاری کردہ بیان پر اعتراض کرتے ہوئے اسے غیر سفارتی اقدام قرار دیا۔
رپورٹ کے مطابق پیش رفت کے حوالے سےسوال کے جواب میں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے بتایا کہ ’ہم نے حکومت پاکستان کو یوکرین کے خلاف روس کی بلا اشتعال جنگ کے سبب علاقائی اور عالمی سلامتی پر پڑنے والے اثرات سے آگاہ کیا ہے‘۔
تاہم اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر منیر اکرم کا کہنا ہے کہ اسلام آباد نہ صرف اپنے اقدامات کے نتائج سے باخبر ہے بلکہ یوکرین میں امن کی بحالی کے لیے ’تمام تر کوششوں کی حمایت کرتا ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر پاکستان کے موقف کو روس کی حمایت کے اظہار کے طور پر بیان کرنا ایک برعکس تشریح ہو گی۔
ن کا کہنا تھا کہ ’ہم جنگ بندی اور مذاکرات کی وکالت کر رہے ہیں، اگر ہم یوکرین کی قرارداد میں شامل ہوتے تو ہمارے پاس دونوں فریقوں کے ساتھ سفارت کاری کے لیے کوئی سیاسی جگہ نہیں ہوتی‘۔
رواں ہفتے کے آغاز میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک غیر پابند قرار داد منظور کی، جس میں یوکرین سے تمام روسی فوجیوں کے فوری انخلا کا مطالبہ کیا گیا۔
مذکورہ قرار داد میں جنوبی ایشیائی ممالک میں سے صرف نیپال نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا جب کہ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا نے اس سے باز رہنے کا فیصلہ کیا۔
پاکستان چین کو اپنے قریبی اتحادی کے طور پر دیکھتا ہے اور اس معاملے پر بظاہر چین کے روس کی حمایت کے حوالے سخت مؤقف نے یوکرینی تنازع پر پاکستان کے رد عمل کو بھی متاثر کیا۔
ایک انٹرویو میں، اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر منیر اکرم نے غیر جانبدار رہنے کے لیے پاکستان کے نئے طریقہ کار کی وضاحت کی۔
یوکرین جنگ سے متعلق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ہنگامی اجلاس میں پاکستان کی غیر حاضری پر وضاحت دیتے ہوئے منیر اکرم نے نشاندہی کی کہ قرارداد میں کچھ خدشات کو دور کیا گیا، تاہم اس میں اب بھی دیگر اہم نکات شامل نہیں ہیں۔
انہوں نے 28 یورپی اور 2 شمالی امریکی ممالک کے نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) کے فوجی اتحاد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ’روس کو نیٹو کی اپنی سرحدوں تک توسیع پر تشویش ہے اور ان خدشات کا ذکر قرارداد میں نہیں کیا گیا ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ یہ ایک طرح سے یکطرفہ قرار داد تھی، ہم ایک متوازن نقطہ نظر چاہتے ہیں، اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس تنازع کو گفتگو سے حل کیا جانا چاہیے‘۔
یوکرین میں شہریوں کی ہلاکتوں سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ شہریوں کی ہلاکتیں چاہے یوکرین میں ہوں یا کشمیر اور افغانستان میں، ان کی ہمیشہ مذمت کی جانی چاہیے۔
تاہم انہوں نے نشاندہی کی کہ اس معاملے پر ’بہت زیادہ پروپیگنڈا اور غلط خبریں نشر کی گئی ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’حقائق کی تصدیق کرنا مشکل ہے اور یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ کس پر بھروسہ کیا جائے، لیکن اگر واقعی عام شہری مارے جا رہے ہیں تو ظاہر ہے کہ ہم ایسی کارروائیوں کی مذمت کرتے ہیں۔