اسلام آباد 🙁سچ خبریں) سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان نے کہا ہے کہ سیاست سے فوج کا کردار مکمل طور پر ختم کرنا مکمن نہیں، ان کی طاقت کا تعمیری استعمال ملک کو ادارہ جاتی بحران سے نکال سکتا ہے۔
ان خیالات کا اظہار عمران خان نے اپنی رہائش گاہ پر ڈان کے ساتھ خصوصی گفتگو کے دوران کیا، زمان پارک میں ان کی رہائش گاہ کی جانب جانے والی تنگ سڑک پر ان دنوں صوبائی پولیس فورس کے کم از کم 3 درجن اہلکار تعینات ہیں۔
وزیر آباد میں عمران خان پر حملے کے بعد ان کی سیکیورٹی ایک سنگین معما بن چکی ہے، ان کی رہائش گاہ پر فون لے جانے کی اجازت نہیں ہے، تاہم سیکیورٹی کلیئرنس کے بعد وکلا، صحافی اور سیکورٹی اہلکاروں کی آمدورفت جاری ہے۔ ڈان کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ’یہ جان کر پُرسکون ہوں کہ میں زندہ ہوں‘۔
قد آور شخصیت کے حامل عمران خان کو اس غیرمعمولی حالت میں دیکھ کر بظاہر حیرت ہوئی جو وہاں پلستر چڑھی ٹانگ صوفے پر رکھ کر تشریف فرما تھے، کوئی یہ سمجھ سکتا ہے کہ اس حملے نے عمران خان کو ہلا کر رکھ دیا ہوگا لیکن وہ مکمل جارحانہ انداز اپنائے ہوئے ہیں، دوران انٹرویو فوجی اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے وہ ذرا بھی نہ جھجکے۔
اگرچہ ان کے بہت سے حامی اب انہیں ایک نئے جمہوریت پسند سیاستدان کے طور پر دیکھ رہے ہیں جو فوج اور سویلین حکومت کے درمیان تعلقات کے اصولوں کو دوبارہ وضع کرنا چاہتا ہے لیکن یہ واضح ہے کہ انہیں ادارے کی طاقت اور اثر و رسوخ پر یقین ہے اور ان کا خیال ہے کہ حدود کے اندر رہتے ہوئے مثبت عمل دخل سے بہتر نتائج برآمد ہو سکتے ہیں، تاہم ان کا کہنا ہے کہ ان کے دورِ حکومت کے 3 برس کے دوران ان کے فوج کے ساتھ تعلقات میں تلخی آ گئی۔
عمران خان نے کہا کہ ’میں نے ہمیشہ یہ سوچا تھا کہ فوج ایک طاقتور اور منظم ادارہ ہے اس لیے جب میں ملک میں قانون کی حکمرانی لانے کی کوشش کروں گا تو وہ ایک اہم کردار ادا کریں گے‘۔
انٹرویو کے دوران انہوں نے مافیاز اور اشرافیہ کے احتساب اور کرپشن کے خاتمے جیسی باتوں کو دہرایا جنہیں ان کی 2018 کی انتخابی مہم میں کلیدی حیثیت حاصل رہی۔
لیکن انہوں نے کہا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) ان کے کنٹرول میں نہیں تھا، نیب کو فوج کنٹرول کرتی تھی، میں کچھ نہ کر سکا، وہ کہتے تھے کہ ’ہاں کچھ کیسز ہیں، ہم ان پر کام کر رہے ہیں‘، لیکن ہوتا کچھ نہیں تھا۔
عمران خان نے کہا کہ ’میں نے یہ جانا کہ درحقیقت اسٹیبلشمنٹ نیب کو کنٹرول کرتی ہے اور جیسا چاہتی ہے اسے چلاتی ہے، اس کا مقصد سیاستدانوں کی کرپشن کی فائلیں رکھ کر انہیں کنٹرول کرنا ہے، وہ کبھی کسی کو دبوچ لیتے ہیں لیکن پھر وہ ضمانت پر رہا ہو جاتا ہے‘۔
فوج اور ان کے درمیان تعلقات بگڑنے کے آغاز سے متعلق سوال پر عمران خان نے بتایا کہ ان کی حکومت کی جانب سے ان لوگوں کو سزا دینے میں ناکامی اس کا پہلا اشارہ تھی جن پر وہ کرپشن کا الزام عائد کرتے آئے تھے، دوسرا معاملہ وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب تھا۔
عمران خان نے بتایا کہ ’آرمی چیف چاہتے تھے کہ میں علیم خان کو وزیراعلیٰ پنجاب کا عہدہ دوں اور میں ایسا نہیں چاہتا تھا کیونکہ ان کے خلاف نہ صرف نیب کے مقدمات تھے بلکہ انہوں نے حکومت کی کروڑوں مالیت کی زمینوں پر قبضہ کرکے انہیں فروخت کردیا تھا‘۔
ناجائز اقدامات میں ملوث ہونے کے شبے کے باوجود علیم خان کو پی ٹی آئی میں شامل کرنے سے متعلق سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ ’ہم نے ہمیشہ یہ سمجھا کہ یہ محض الزامات ہیں اور علیم خان بھی ان الزامات پر اپنا دفاع کرتے تھے لیکن جب میں نے ایل ڈی اے کے وائس چیئرمین سے علیم خان کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے مجھے نقشہ دکھایا کہ علیم خان نے کس طرح سرکاری زمین پر قبضہ کر رکھا ہے، یہ میری حکومت کے دوسرے سال کے اختتام اور تیسرے سال کے آغاز کے قریب ہوا‘۔
عمران خان نے واضح کیا کہ علیم خان کے وزیر اعلیٰ پنجاب بنانے کے مطالبے تک جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ ان کے تعلقات ہموار انداز میں آگے بڑھ رہے تھے۔
عمران خان نے کہا کہ ’وہ ایک منظم ادارہ ہے، ہم ان کی مدد لے سکتے تھے، ہم خارجہ پالیسی کے حوالے سے ایک ہی پیج پر تھے، یہ بس گزشتہ 6 ماہ کی بات ہے جب ان کا ان بدمعاشوں کے ساتھ سودا ہوگیا جنہیں سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہیے‘۔
احتساب کے معاملات پر فوج کے اثر و رسوخ کے بارے میں اپنے مؤقف پر زور دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ’میرے اقتدار میں آنے سے قبل ہی فوج ان لوگوں کے پیچھے تھی، ان میں سے 95 فیصد کیسز میری حکومت سے پہلے کے ہیں، نواز شریف کے ایون فیلڈ کیس میں اگر فوج جے آئی ٹی کے لیے 2 بریگیڈیئر فراہم نہ کرتی تو ان کو سزا نہ ہوتی‘۔
عمران خان نیب کی عدم فعالیت اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے معاملے کو فوج کے ساتھ تعلقات میں تناؤ کی وجہ قرار دیتے ہیں لیکن بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اس کی وجہ دراصل نئے ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی پر آرمی چیف کے ساتھ ان کے اختلافات تھے۔
اس حوالے سے عمران خان نے کہا کہ ’دیکھیں مجھے فوج کی اندرونی سیاست کا علم نہیں، میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ فوج کے ساتھ ہمارا تعلق اچھا چل رہا تھا، مجھے بعد میں پتا چلا کہ اگلے آرمی چیف کے بارے میں بڑا مسئلہ چل رہا ہے، میں نے تو کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ نومبر میں اگلا آرمی چیف کون بنے گا، اگر میرٹ پر ہو تو مجھے کیوں پروا ہوگی؟ بس اسے ایک بہترین انسان ہونا چاہیے، یہ معاملہ شریفوں اور زرداریوں کے لیے اہم ہوسکتا ہے لیکن میرے لیے نہیں‘۔
جنرل فیض حمید کو ان کا انتخاب سمجھے جانے کے تاثر کے حوالے سے سوال پر عمران خان نے کہا کہ ’جنرل فیض واحد جنرل ہیں جنہیں میں جانتا تھا کیونکہ وہ میرے ساتھ سربراہ آئی ایس آئی کے طور پر کام کر رہے تھے، میں کسی اور کو نہیں جانتا تھا، میں نے جنرل قمر جاوید باجوہ سے کہا کہ میں آپ کی تجاویز لوں گا کیونکہ میں دیگر امیدواروں کو نہیں جانتا، لیکن اس وقت میری پریشانی افغانستان تھی، مجھے خدشہ تھا کہ یہ خانہ جنگی کی نذر ہوجائے گا‘۔
انہوں نے کہا کہ ’میں نے محسوس کیا کہ امریکی ہم پر الزام عائد کریں گے اور ہم پر پابندیاں عائد کی جائیں گی، اشرف غنی نے مجھے بتایا کہ وہاں 3 لاکھ افغان فوجی ہیں اور ان کی تعداد بڑھے گی‘۔
انہوں نے کہا کہ ’صرف اشرف غنی ہی نہیں، آئی ایس آئی بھی ہمیں بتا رہی تھی کہ افغانستان میں خانہ جنگی ہوگی، میں چاہتا تھا کہ جنرل فیض موسم سرما میں اس وقت تک عہدے پر رہیں جب تک افغانستان میں اقتدار کی منتقلی نہیں ہو جاتی‘۔
2018 کے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات، سیاسی مخالفین کو جیلوں میں ڈالنے یا نااہل ہونے اور چند میڈیا گروپس کی جانب سے بھرپور حمایت کے باوجود عمران خان اس مؤقف پر قائم ہیں کہ 2018 میں اقتدار میں آنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ نے ان کی کوئی مدد نہیں کی، عمران خان کے مطابق 2018 میں وہ فوج کے پسندیدہ ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی مقبولیت کی وجہ سے جیتے تھے۔
عمران خان نے کہا کہ ’فوج نے 2018 کے الیکشن میں میرا ساتھ نہیں دیا تھا، مجھے یقین ہے کہ ہم جائز اور منصفانہ طریقے سے جیتے تھے‘۔
عمران خان نے مزید کہا کہ ’میں گزشتہ 6 ماہ میں اقتدار سے باہر ہوں، اس دوران میں نے 37 ضمنی انتخابات میں سے 29 میں کامیابی حاصل کی ہے، حالانکہ اس وقت الیکشن کمیشن بھی ان کی حمایت کر رہا ہے، اس کے باوجود ہم نے 37 میں سے 29 ضمنی انتخابات جیت لیے‘۔
انتخابات اور دھاندلی سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ آئندہ انتخابات کے لیے الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں (ای وی ایم) متعارف کرانے کی کوششوں کی بھی فوج نے مخالفت کی۔
عمران خان نے کہا کہ ’2 برس تک میں نے الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں (ای وی ایم) حاصل کرنے کی کوشش کی، آپ کے پاس ای وی ایم ہو تو دھاندلی کا امکان ختم ہوجاتا ہے کیونکہ ساری دھاندلی پولنگ ختم ہونے کے بعد ہوتی ہے، مگر دونوں بڑی جماعتوں نے اس کی مخالفت کی کیونکہ زیادہ تر حلقوں میں انہیں جعلی ووٹ ہی ملتے ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے بھی ای وی ایم کی مخالفت کی گئی، کیونکہ ووٹوں میں ہیرپھیر ووٹوں کی گنتی کے دوران ہی ممکن ہوتی ہے، یاد کریں وہ وقت جب خواجہ آصف ہار رہے تھے تو جنرل قمر باجوہ نے بتایا تھا کہ انہیں خواجہ آصف کی کال آئی تھی؟ اور پھر اگلے روز وہ جیت گئے تھے‘۔
گزشتہ انتخابات میں پی ٹی آئی کی جیت پر بھی دھاندلی کے الزامات سے متعلق سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ ’ہم نے 3 ہزار ووٹوں کے مارجن سے 17 سیٹیں کھو دی تھیں، اگر اسٹیبلشمنٹ ہماری مدد کرنا چاہتی تو ہم آسانی سے یہ سیٹیں حاصل کر سکتے تھے‘۔
عمران خان نے تسلیم کیا کہ کمزور اکثریت پر مبنی حکومت ان کا سب سے بڑا چیلنج تھی، اور اگر انہیں دوبارہ کمزور حکومت ملی تو وہ اسے قبول نہیں کریں گے۔
عمران خان نے کہا کہ ’ہمارے پاس اختیار نہیں تھا، اس بار اگر مجھے واضح اکثریت نہ ملی تو میں اقتدار قبول نہیں کروں گا کیونکہ اگر آپ کے پاس اکثریت نہیں ہے تو آپ کوئی کام نہیں کر سکتے، اگر کمزور اکثریت کے ساتھ آپ کی اتحادی حکومت ہو اور آپ کو آپ کے اپنے ہی لوگ بلیک میل کرتے رہیں تو حکومت کرنا ناممکن ہوتا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہا کہ ’ایسی صورتحال میں فوج کا کردار زیادہ اہم ہو جاتا ہے کیونکہ ہمیں ان کی مدد کی ضرورت تھی اور ہم اسی مقصد کے لیے مل کر کام کر رہے تھے‘۔
مرضی کی ہدایت پر عملدرآمد کی صورت میں فوج کا اثر و رسوخ برقرار رہنے پر مطمئن ہونے سے متعلق سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ ’ان کے کردار کو مکمل طور پر ختم کردینا خام خیالی ہوگا، وہ کئی برسوں سے اقتدار میں ہیں لیکن ایک توازن کی ضرورت ہے، یہ سوچنا کہ فوج کو سیاست سے باہر کر دیا جائے ناممکن ہے، ان کی طاقت کا تعمیری استعمال اس ملک کو ادارہ جاتی بحران سے نکال سکتا ہے‘۔