منحرف رکن کا پارٹی ہدایت کیخلاف ڈالا گیا ووٹ گنتی میں شمار نہیں ہو گا۔منحرف رکن کی نااہلی کی مدت کا تعین پارلمنٹ کرے،آئین میں پارٹی ہدایات کیلئے پارلیمانی پارٹی کا ذکر ہے،ہیڈ کا نہیں۔ فیصلے کے مطابق ارکان پارلمنٹ کو اظہار رائے کی آزادی ہے،پارٹی پالیسی کے خلاف ڈالے گئے ووٹ کو شمار کرنا جمہوری نظام کے لیے خطرہ ہے۔اکثریتی فیصلے میں کہا گیا کہ صدارتی ریفرنس کے قابلِ سماعت ہونے پر اٹھائے گئے اعتراضات مسترد کرتے ہیں۔
صدارتی ریفرنس پر اٹھائے گئے اعتراضات کے جوابات وکلاء محاذ کیس میں سپریم کورٹ پہلے بھی دے چکی ہے۔وزیر اعظم یا وزیراعلٰی پارلیمانی پارٹی میں اعتماد کھو بیٹھے تو اسے عدم اعتماد یا اعتماد کے ووٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔رکن اسمبلی کا پارٹی ہدایات کے خلاف ووٹ ڈالنا پارلیمانی جمہوری نظام کے لیے تباہ کن ہے۔ فصلے میں کہا گیا کہ ارکان اسمبلی کے اظہارِ رائے کے حق کو وکلا محاذ کیس میں بھی تحفظ دیا گیا۔
ارکان اسمبلی ووٹ کے معاملے پر پارٹی کے اندر بحث،اتفاق یا عدم اتفاق کر سکتے ہیں،جب معاملہ ووٹ ڈالنے کا آئے گا تو پھر صورتحال مختلف ہوگی۔ فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ ووٹ ڈالتے وقت آرٹیکل 63 اے کے تحت پارلیمانی پارٹی کی ہدایات پر عمل کرنا ہوگا۔یہ دلیل دی گئی کہ منحرف رکن کا ووٹ شمار نہ کرنے سے پارلیمانی پارٹی میں آمریت کو فرغ ملے گا تاہم فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آمریت کو فروغ ملنے کی دلیل سے ہم متفق نہیں۔ فیصلے کے مطابق تمام سیاسی جماعتوں کے آئین میں دیے گئے حقوق برابر ہیں، تمام سیاسی جماعتیں آئین کی نظر میں برابر ہیں، چھوٹی جماعتوں کو بھی کام کرنے کی مکمل آزادی ہونی چاہیے، ارکان کا منحرف ہونا سیاسی جماعتوں کی سالمیت اور ہم آہنگی پر براہ راست حملہ ہوتا ہے۔