چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کی جانب سے اب تک 3 پوائنٹس اٹھائے گئے ہیں، فیصلے میں دانش مندی ہے، وہ قانونی عمل کو حتمی بنانے کی بات کر رہے ہیں، بھارت میں حق سماعت نہ ملے تو نظر ثانی ہوتی ہے، ہمارے ہاں فیصلہ غیر قانونی ہو تو نظر ثانی ہوجاتی ہے، غلط قانون کو حتمی نہیں ہونے دیتے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ کریمنل ریویو میں صرف نقص دور کیا جاتا ہے، سول میں اسکوپ بڑا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہم یہ دیکھ رہے ہیں کیا پارلیمنٹ ریویو اسکوپ بڑھا سکتی ہے؟ نظر ثانی کے آئینی تقاضے ہیں مگر اسے اپیل میں بدلا نہیں جا سکتا، آپ کے مطابق وہ دراصل 184 (3) کے اثر کو کم تر کر رہے ہیں، آپ کہہ رہے ہیں 184 (3) کا دائرہ کم کریں، موسٹ ویلکم لیکن آئینی ترمیم سے کریں؟
بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ جی ہم یہی کہہ رہے ہیں، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نظر ثانی میں آپ کو دکھانا ہوگا کون سا نقص فیصلے میں موجود ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اس قانون کو صرف 184 (3) تک محدود کیا گیا ہے، ایک محدود مقصد کے لیے ریویو ایکٹ بنا دیا گیا، کل پارلیمنٹ ایک اور قانون بناتی ہے کہ ایک نہیں 2 اپیلیں ہوا کریں گی تو کیا ہوسکتا ہے؟
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ اب تو ایکٹ کے آنے سے پہلے کے فیصلوں پربھی نظرثانی قانون لاگو ہوگا اور ازخود نوٹس والے مقدمات پربھی ایکٹ لاگو ہوگا، جس سے سب کیس دوبارہ کھل جائیں گے۔
بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ محض قانون سازی سے نہیں آئینی ترمیم سے کرسکتی ہے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئین دائرہ اختیار میں کمی کی اجازت دیتا ہے لیکن آئینی ترمیم کے ذریعے ہونی چاہیے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ازخود نوٹس کے ذریعے ریویو کا حق دیا گیا ہے، اس کا مطلب ہے کہ آئین اختیارات میں کمی کی اجازت تو دے رہا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نظر ثانی کے لیے عدالتی فیصلوں میں غلطیوں کی نشاندہی کرنا ہوتی ہے، کیا آئین سازوں کو نظر ثانی اور اپیل کا فرق معلوم تھا؟ اس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پارلیمان سب کچھ کر سکتی ہے لیکن آئینی ترمیم کے ذریعے، قانون سازی کے ذریعے نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نظر ثانی میں سماعت کا حق اور غلط قانون قرار دیا جا سکتا ہے لیکن اپیل نہیں بنایا جا سکتا، آپ ازخود اختیارات میں سپریم کورٹ کے اختیارات محدود کریں موسٹ ویلکم لیکن یہ آئینی ترمیم ہونی چاہیے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ ازخود اختیارات فیصلوں پر نظر ثانی آئین کے اختیارات آرٹیکل 188 میں دیے گئے ہیں، اگر 188 میں نظر ثانی کا دائرہ کار بڑھایا جائے گا تو ازخود اختیارات کے فیصلوں کے حتمی ہونے پر سوال اٹھیں گے۔
دریں اثنا پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل صبح ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی، کل اٹارنی جنرل کے دلائل سنے جائیں گے۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز ہونے والی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ ریویو ایکٹ کے خلاف کیس مضبوط نہ ہوا تو آئندہ لائحہ عمل طے کریں گے۔
گزشتہ ماہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے دستخط کے بعد سپریم کورٹ ری ویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈر بل 2023 قانون بن چکا ہے، جس کے بعد آرٹیکل 184/3کے تحت دیے گئے فیصلوں پر نظر ثانی درخواست دائر کرنے کا حق ہوگا۔
حکومت کی جانب سے جاری کردہ نوٹی فکیشن کے مطابق ڈاکٹر عارف علوی نے 26 مئی کو مذکورہ بل پر دستخط کردیے جس کے بعد یہ قانون کی حیثیت اختیار کرگیا۔
مذکورہ بل 14 اپریل کو قومی اسمبلی سے منظور ہونے کے بعد 5 مئی کو سینیٹ سے بھی منظور کرلیا گیا تھا۔
اس نئے قانون کے تحت آرٹیکل 184/3کے تحت کیے گئے فیصلوں پر 60 دن میں نظر ثانی اپیلیں داخل کی جاسکیں گی اور فیصلہ دینے والے بینچ سے بڑا بینچ اپیل کی سماعت کرے گا۔
واضح رہے کہ 23 مارچ کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 30 اپریل بروز اتوار کو شیڈول پنجاب اسمبلی کے عام انتخابات کو ملتوی کردیا تھا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات 8 اکتوبر کو ہوں گے، آئین کے تحت حاصل اختیارات استعمال کرتے ہوئے انتخابی شیڈول واپس لیا گیا اور نیا شیڈول بعد میں جاری کیا جائے گا۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ اس وقت فی پولنگ اسٹیشن اوسطاً صرف ایک سیکیورٹی اہلکار دستیاب ہے جبکہ پولیس اہلکاروں کی بڑے پیمانے پر کمی اور ’اسٹیٹک فورس‘ کے طور پر فوجی اہلکاروں کی عدم فراہمی کی وجہ سے الیکشن ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
فیصلے کی تفصیل کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ اس صورت حال میں الیکشن کمیشن انتخابی مواد، پولنگ کے عملے، ووٹرز اور امیدواروں کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے متبادل انتظامات کرنے سے قاصر ہے۔
مزید کہا گیا تھا کہ وزارت خزانہ نے ’ملک میں غیر معمولی معاشی بحران کی وجہ سے فنڈز جاری کرنے میں ناکامی‘ کا اظہار کیا ہے۔
الیکشن کمیشن نے نشان دہی کی تھی کہ الیکشن کمیشن کی کوششوں کے باوجود ایگزیکٹو اتھارٹیز، وفاقی اور صوبائی حکومتیں پنجاب میں آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد میں انتخابی ادارے کے ساتھ تعاون کرنے کے قابل نہیں تھیں۔
الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے ردعمل میں 23 مارچ کو پی ٹی آئی نے پنجاب میں 30 اپریل کو ہونے والے انتخابات ملتوی کرنے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا تھا۔
بعد ازاں 25 مارچ کو پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب اسمبلی کے انتخابات ملتوی کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی تھی۔
جس پر 4 اپریل کو سماعت کرتے ہوئے عدالت نے فیصلے میں کہا تھا کہ الیکشن کمیشن 90 دن سے آگے نہیں جاسکتا، الیکشن کمیشن کے غیر قانونی فیصلے سے 13 دن ضائع ہوئے، آئین اور قانون الیکشن کمیشن کو تاریخ میں توسیع کی اجازت نہیں دیتا، الیکشن کمیشن نے انتخابات کی 8 اکتوبر کی تاریخ دے کر دائرہ اختیار سے تجاوز کیا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ صدر مملکت کی دی گئی تاریخ کا فیصلہ بحال کیا جاتا ہے، 30 اپریل سے 15 مئی کے درمیان صوبائی انتخابات کرائے جائیں، تاہم ڈیڈ لائن گزرنے کے باوجود عدالتی حکم پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔
بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے ملک بھر میں تمام اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن کرانے کے معاملے پر حکومتی اتحاد اور اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف کو آپس میں مذاکرات کرنے کی بھی ہدایت کی تھی، تاہم وہ مذاکرات کسی حتمی نتیجے کے بغیر ختم ہوگئے تھے۔