اسلام آباد (سچ خبریں) نیشنل امچیور شارٹ فلم فیسٹیول کی تقسیم انعامات کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا سافٹ امیج مطلب کا یہ نہیں کہ ہم انگریزی بولنا شروع کردیں اور ان کی طرح کپڑے پہننا شروع کریں، تو یہ سافٹ امیج ہے کہ ہم آپ کی طرح ہی ہیں انہوں نے کہا کہ میرا تجربہ ہے، کہ کاپی کی کوئی ویلیو نہیں ہے، فلم فیسٹیول کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ہے.
ان کا کہنا تھا کہ ہم بالکل درست راستے پر جارہے ہیں، میں سوچتا تھا ہم بھی ایک دن اس طرف نکلیں گے، میں تقریباًپاکستان کے ساتھ بڑا ہوا ہوں، فلم انڈسٹری کا آغاز دیکھا ہے،ہم غلط راستے پر چلے گئے حقیقی سوچ کی بجائے ہم نے بھارتی فلموں کو کاپی کرنا شروع کردیا، ہم نے دوسری فلموں کا جائزہ لینے کی بجائے ان کو کاپی کرنا شروع کردیااور ان کا کلچراپنا لیا، 60ء میں لوگ بھارتی فلم دیکھنے کیلئے لوگ کابل جاتے تھے، سوچ تھی کہ وہ بہتر فلم انڈسٹری ہے، ہم کاپی کریں گے تو لوگ ہمیں دیکھیں گے۔
70ء میں ہمارا ٹی وی ہندوستان میں دیکھا جاتا تھا۔ دنیا کے اندر میرا تجربہ ہے، کہ کاپی کی کوئی ویلیو نہیں ہے، ویلیو صرف اوریجنل کو کرتی ہے، نصرت فتح علی خان کو شوکت خانم کی فنڈریزنگ کیلئے انگلینڈ اور امریکا بھی لے جاتا تھا، میری وہاں کے بڑے پا پ اسٹار سے واقفیت تھی، میں نے ان کو دعوت دی، وہ سب نصرت فتح علی کے فین بن گئے ،نصرت فتح علی خان کی ویلیو اس لیے تھی کہ کاپی نہیں کرتی تھی، اگر ان کی وفات نہ ہوتی تو مغرب میں ان کا نام بننے والا تھا۔
میرا کرکٹ کا تجربہ ہے، میں پہلی بار انگلینڈ میں میچ کھیلنے گیا تو ہماری ٹیم کے لوگ کہتے تھے ہم انگزیز سے نہیں جیت سکتے، کیونکہ سوچ تھی کہ ان کے پاس تیکینک ہے، ہم جیتا ہوا میچ ہار جاتے تھے، پھر تبدیلی آئی ، ہم نے ان کو کاپی کرنا شروع کیا، لیکن جب ہم نے ریورس سوئنگ کو ایجاد کیا، دنیا نے پھر ہمیں بھی فالو کیا۔ میں چاہتا ہوں ہماری فلم انڈسٹری میں حقیقت آئے، نئی سوچ ہو، ہماری فلم انڈسٹری ہالی وڈ اور بالی وڈ سے متاثر ہے، ہمارے فلم سازوں کے پاس موقع ہے ہم دنیا کو پاکستان دکھائیں۔
میں ارطغرل سیریز کو پاکستان لے کر آیا، لوگ اس کو پسند کرتے ہیں۔ دنیا میں ہار سے ڈرنے والا کبھی نہیں جیتتا ، جیت کیلئے رسک لینا پڑتا ہے، ہارنے کا خوف انسان کی صلاحیت میں رکاوٹ ہے۔ لوگوں کو اندازہ ہی نہیں پاکستان میں کتنی ورائٹی ہے، بدقسمتی سے ہمارے سیاستدانوں کو پتا ہی نہیں ، کیونکہ ان کی چھٹیاں لندن میں گزرتی ہیں، پاکستان میں سیاحت ترقی کی راہ ہے، ہماری ٹورازم پر توجہ نہیں ہے، ماؤنٹین ٹورازم دنیا میں کہیں نہیں ہے، دنیا میں بڑی چوٹیاں پاکستان میں ہیں۔
ہمارے پاس بارہ موسم ہیں، ہم پاکستان میں ہر چیز اگا سکتے ہیں،فلم میکرز کے پاس موقع ہے کہ دنیا کو پاکستان دکھائیں۔انہوں نے کہا کہ دہشتگری کی جنگ تھی تو سافٹ امیج لفظ سنتا ہوں کہ پاکستان کا سافٹ امیج دکھانا چاہئے، مجھے آج تک اس کی سمجھ نہیں آئی ، دہشتگردی کی جنگ میں شرکت کررہے تھے،امریکا کیلئے ہم دہشتگردی کی جنگ لڑ رہے تھے، ہمیں برا بھلا بھی کہا جارہا تھا، حالانکہ ہمیں امریکا کی دہشتگردی کی جنگ میں شرکت کرنے کی ضرورت نہیں تھی، میں شروع سے ہی اس کی مخالفت کی تھی، جب انہوں نے کہا کہ پاکستان خطرناک جگہ ہے، انتہاپسند اور دہشتگرد ہیں، ہمارے اندر سے ایک دفاع کرنے کی چیز سامنے آئی کہ پاکستان کا سافٹ امیج پروموٹ کریں گے تو دنیا کہے گی ہم بہت اچھے ہیں، سافٹ امیج کوئی چیز نہیں ہوتی ، احساس کمتری کی وجہ سے اس طرف لگ جاتے ہیں، میں اس سے گزرا ہوا ہوں مجھے طالبان خان کہتے تھے ،ماڈریٹ کای چیز تھی؟مطلب ہم انگریزی بولنا شروع کردیں اور ان کی طرح کپڑے پہننا شروع کریں، تو یہ سافٹ امیج ہے کہ ہم آپ کی طرح ہی ہیں۔
سافٹ امیج خودداری سے آتا ہے، دنیا اس کی عزت کرتی ہے جو اپنی عزت کرتا ہے، جس میں خودداری نہیں ، دنیا اس کی عزت نہیں کرتی، سافٹ امیج پروموٹ کرنا ہے تو پاکستانیت کو پروموٹ کریں ، ملک اس لیے نہیں بنا تھا، قائداعظم اورعلامہ اقبال عظیم لوگ تھے، وہ بڑے ذہن تھے۔