اسلام آباد (سچ خبریں) وفاقی وزرا کے ہمراہ پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا تھا کہ ‘اخوت پروگرام نے ڈیڑھ سو ارب روپے کے چھوٹے قرضے دیے ہیں جس سے ریکوری 99 فیصد تک ہوئی ان کا کہنا تھا کہ ‘حکومت کے پاس اتنی گنجائش نہیں کہ ایک سال میں 500 سے 600 ارب روپے دے، عوام کو قرضے ہول سیل فنانسنگ، کمرشل بینکوں سے دلارہے ہیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘کمرشل بینک جب غریب عوام کو قرضے دیں گے تو ہم انہیں ضمانت دیں گے کہ یہ پیسے واپس آئیں گے’۔انہوں نے بتایا کہ ‘ثانیہ نشتر ہر خاندان کی آمدن کے حوالے سے ایک سروے کر رہی ہیں، اس کے مطابق یہ قرضے دیے جائیں گے، غریب کے ساتھ سیاست نہیں کرنی چاہے وہ ملک کے کسی بھی کونے میں ہو’۔
انہوں نے کہا کہ ‘کاشتکار کو ڈیڑھ لاکھ روپے ہر فصل کا دیں گے، ٹریکٹر لیز کرنے کے 2 لاکھ روپے دیں گے اور شہری علاقوں میں 5 لاکھ روپے تک کا بلا سود قرضہ دیں گے تاکہ وہ کاروبار کرسکے’۔
شوکت ترین کا کہنا تھا کہ ‘ہم ہر خاندان کو اپنی چھت دیں گے، اس کی حد 20 لاکھ روپے تک ہے کیونکہ شہری علاقوں میں زمینیں مہنگی ہیں’۔
انہوں نے کہا کہ ‘اس کے علاوہ جب غریب کے گھر کوئی بیمار ہوجاتا ہے تو انہیں علاج کے لیے پیسوں کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے اور انہیں اپنی چیزیں بیچنی پڑ جاتی ہیں تاہم صحت کارڈ سے ان کے مسائل کا حل ہوگا’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم چاہتے ہیں کہ اِسکل ڈیولپمنٹ پر کام کریں تاکہ غریبوں کو روزگار مل سکے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘حکومت نے معاشی نمو کو سب تک منتقل کیا ہے اور اس بجٹ میں پی ایس ڈی پی، صنعتوں زراعت وغیرہ سب کو مراعات دی ہیں تاہم اب ہمارا چیلنج مستحکم نمو لانا ہے’۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ‘ملک کے قابل اکانومسٹ کو اکٹھا کرکے میں ان سے یہ سوال کیا تھا کہ ہمارے ملک کی مستحکم نمو کیوں نہیں ہوتی تو انہوں نے کہا تھا کہ جب آپ کی معیشت میں طلب بڑھتی ہے تو درآمد بڑھتی ہے اور برآمد اتنی نہیں بڑھتی جس سے ڈالر کم ہوتے ہیں اور وہ آپ چھاپ نہیں سکتے تو آپ کی مالیاتی صورتحال کمزور ہوجاتی ہے اور آپ کو آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘اسی وجہ سے ہم ہر وقت آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہیں، ہمیں ڈالر کمانے ہیں جو ہم برآمدات سے ہی کماسکتے ہیں’۔
انہوں نے کہا کہ ‘ہماری برآمدات جی ڈی پی کا 8 فیصد ہے، کوشش ہے کہ آئندہ 8 سے 10 سال کے درمیان اسے 20 فیصد تک لے جائیں’۔
شوکت ترین کا کہنا تھا کہ ‘اس کے علاوہ ماہہرین نے کہا تھا کہ ہمیں اپنی سیونگز بڑھانی ہوں گی اس کے ذریعے سرمایہ کاری ہوگی’۔
ان کا کہنا تھا کہ جب تک سرمایہ کاری نہیں ہوگی تو معیشت کیسے بڑھے گی، فی الوقت ہماری سیونگز کی شرح 15 سے 16 فیصد ہے اور ہمیں اسے بڑھانا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ‘ہمارے پاس ریونیو نہیں، ریونیو ایف بی آر اور صوبے اکٹھا کرتے ہیں، ہم نے اس پر کافی چیلنجنگ ٹاسک دیا ہے کہ وہ 47 کھرب تک اکٹھا کریں گے’۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ‘کہا جارہا ہے کہ یہ کیسے ہوگا، ہم یہ پورا کرلیں گے، جیسا خان صاحب کہتے ہیں، گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم نے اسے آئندہ سال کے لیے 58 کھرب کردیا ہے، تو لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ رسک ہے، ہم نے بہت لوگوں کی معلومات حاصل کرلی ہیں جو ٹیکس نہیں دیتے، ہم اب ان کے پاس جائیں گے’۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف سے یہی مذاکرات ہوئے ہیں کہ جو ٹیکس دے رہے ہیں ان پر ٹیکس نہیں لگائیں گے بلکہ مزید لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لائیں گے۔
شوکت ترین کا کہنا تھا کہ ’10 ہزار پی او ایس استعمال کیے ہیں جس سے 150 سے 125 ارب کی فروخت ریکارڈ کی ہے، یہ کچھ بھی نہیں، صرف امتیاز اسٹور کی فروخت 2 سے 3 سو ارب کی ہے مطلب انہوں نے پورے ظاہر ہی نہیں کیے میں اور کا نام نہیں لینا چاہتا’۔
انہوں نے کہا کہ ‘پی او ایس پر آنے کے بعد ریٹیلر کچی پرچی پر کام کرنا شروع کردیں گے تو اسے روکنے کے لیے صارفین سے پکی پرچی طلب کریں گے اور اس پر 25 کروڑ روپے تک کے انعامات دیں گے جسے بڑھا کر ایک ارب روپے تک لے کر جائیں گے’۔
شوکت ترین کا کہنا تھا کہ ‘صارف خود جاکر ان کا گلا پکڑے گا کہ ہمیں پکی پرچی چاہیے ہیں، یہ ترکی اور دیگر ممالک میں بھی طریقہ کار اپنایا جاچکا ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘4 علاقوں کو ٹریک اینڈ ٹریس میں لے کر آئیں گے، ہم کرسکتے ہیں گزشتہ سال بغیر پی او ایس کے 160 ارب اکٹھا کیا تھا ہم نے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘ہمارا ریونیو ہدف جارحانہ ضرور ہے تاہم اگر ہم نے یہ کرلیا تو ایک مالی خلا ہمیں ملے گی جس کو ہم زراعت میں استعمال کرسکیں گے’۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ‘ہمارا ملک خوراک کی کمی کا شکار ہے اور اس کا مطلب ہے کہ ہم اہم چیزیں درآمد کر رہے ہیں، ہم نے فصلوں پر توجہ نہیں دی اور اب ہم اس پر توجہ دیں گے’۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کے منصوبے کے مطابق جو مراعات دینی تھیں دی ہیں اور آگے ضرورت پڑی تو اور بھی دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ‘ہم برآمدات میں جو مراعات دے سکتے تھے دی ہیں، ہم صرف ٹیکسٹائل تک محدود نہیں رہے بلکہ خصوصی اقتصادی زونز سے ٹیکسز ختم کردیے ہیں تاکہ چین سے سرمایہ کار یہاں آئے اور چیزیں بنا کر برآمد کریں اور ڈالر کمائیں’۔
شوکت ترین کا کہنا تھا کہ ‘ہم نے بجلی اور انفراسٹرکچر سمیت اقتصادی زونز پر خرچے کردیے ہیں اور ہمیں یہ پیسے واپس کرنے ہیں اگر ڈالر نہیں کمائیں گے تو پیسے کیسے واپس کریں گے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم آئی ٹی میں نمو کو بڑھانا چاہتے ہیں جو اس وقت 40 سے 45 فیصد پر ہے اور اسے 100 فیصد تک لے جانا چاہتے ہیں’۔
انہوں نے کہا کہ ‘برآمدات کے شعبے میں تقریباً تمام خام مال پر ٹیکس صفر کردیے ہیں کیونکہ زراعت کے بعد سب سے زیادہ روزگار صنعتیں دیتی ہیں’۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ‘اس کے علاوہ ہاؤسنگ کا شعبہ بھی ترقی کر رہا ہے اور بینکس مطمئن ہیں کہ وہ پیسے جو دیں گے وہ ریکور ہوجائیں گے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہماری مارک ایپ کی شرح 12 سے 14 فیصد تھی جو لوگوں کے لیے مناسب نہیں تھی کیونکہ کرائے کو اور قسطوں کا موازنہ کیا جاتا تھا تو کرایہ 10 ہزار ہو تو قسط 20 ہزار ہوتی تھی’۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے اس پر چھوٹ دے کر لوگوں کی پہنچ تک اسے لے کر آئے ہیں اور امید ہے کہ یہ شرح مزید نیچے جائے گی اور مڈل کلاس کو بھی گھر مل سکیں گے۔
شوکت ترین کا کہنا تھا کہ ‘سب سے زیادہ ہم نے پاور سیکٹر پر سبسڈیز میں اضافہ کیا ہے اور تمام ڈسکوز کو ٹھیک کرکے ان کی نجکاری کردیں گے تاکہ ہماری نمو صلاحیتی ادائیگی کا استعمال شروع کردیں گی’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہمیں 5 سے 7 سال کا وقفہ چاہیے جس میں ہم ان صلاحیتی ادائیگی کو موخر کرسکیں’۔
انہوں نے کہا کہ ‘پاور سیکٹر کو مالیاتی طور پر مستحکم بنانا ہے، اگر ایسا نہ کریں گے تو ہمیں ٹرانسمیشن میں پیسے جو درکار ہیں اس میں پرائیوٹ سیکٹر پیسے نہیں ڈالے گا’۔
انہوں نے مزید کہا کہ ‘ایک چیز واضح کردوں کہ گزشتہ روز بجٹ میں رکھا تھا کہ موبائل کالز، انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس پر ٹیکس لگانے کا کہا تھا، کابینہ نے اس کی مخالفت کی اور یہ اب ہم یہ نہیں کر رہے ہیں’۔