اسلام آباد(سچ خبریں) میڈیا رپورٹس کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس قاضی فائز عیسٰی نظرثانی کیس کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا ہے، سپریم کورٹ نے مختصر فیصلہ 26 اپریل 2021 کو سنایا تھا، عدالت نے 9 ماہ 2 دن بعد نظرثانی درخواستوں کا تحریری فیصلہ جاری کیا۔ جسٹس یحیٰی آفریدی کا اضافی نوٹ بھی فیصلے کا حصہ ہے، اضافی میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے 19 جون 2020 کے فیصلے میں ایف بی آر کو تحقیقات کا حکم دیا گیا، ایف بی آر کو تحقیقات کا حکم دینا آرٹیکل 211 اور انکم ٹیکس آرڈیننس کی حدود سے باہر تھا، سپریم کورٹ سمیت کوئی بھی عدالت سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی میں مداخلت نہیں کرسکتی، جوڈیشل کونسل کو اختیار ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے جج کے خلاف کارروائی مثبت طریقہ کار سے کرے، ایسی کارروائی پر عدالتوں کو کونسل کی بالادستی اور آئینی آزادی برقرار رہنے دینی چاہیے، سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل کو ایف بی آر کو کمشنر کی معلومات پر جج کے خلاف کارروائی کا حکم نہیں دے سکتی، سپریم جوڈیشل کونسل کو تحقیقات کا حکم دینا سپریم کورٹ کو فیصلہ کنندہ سے شکایت کنندہ بنا دیتا ہے، انکم ٹیکس آرڈیننس کے تحت ٹیکس کنندگان کے خلاف کارروائی کا مکمل طریقہ کار موجود ہے، سپریم کورٹ نے ٹیکس حکام کو کارروائی کا حکم آرڈیننس میں درج طریقہ کار کے خلاف دیا، سپریم کورٹ نے عبوری فیصلے میں ٹیکس حکام کو تحقیقات کا حکم دے کر قانون ساز کا کردار ادا کیا۔
ایسٹ ریکوری یونٹ کے سربراہ شہزاد اکبر نے وزیر قانون کی مشاورت سے ایف بی آر کو تحقیقات کا کہا، شہزاد اکبر اور فروغ نسیم کو غلط کام کی اجازت دینا وزیراعظم کے گڈگورننس کے اصول کی نفی ہے، یہ عمل غیرقانونی کام میں وزیر اعظم کی شمولیت کو بےنقاب کرتا ہے۔مزید برآں سپریم کورٹ کا فیصلہ جسٹس مقبول باقر جسٹس مظہر عالم ،جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس امین الدین نے تحریر کیا۔
دس رکنی لارجر بینچ نے 6 چار کے تناسب سے سرینا عیسٰی کے حق میں فیصلہ سنایا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے لارجر بنچ کے جاری کردہ تحری فیصلے میں کہا گیا کہ اہلیہ سرینا عیسٰی کی نظرثانی درخواستیں اکثریت سے منظور کی جاتی ہیں۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ اس عدالت کے جج سمیت کوئی قانون سے بالاتر نہیں، کوئی بھی شخص چاہے وہ اس عدالت کاجج کیوں نہ ہو اس کو قانونی حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا، ہر شہری اپنی زندگی، آزادی، ساکھ، جائیداد سے متعلق قانون کے مطابق سلوک کا حق رکھتا ہے، آئین کے آرٹیکل 9 سے 28 تک ہر شہری کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرتے ہیں، اگر کوئی شہری عوامی عہدہ رکھتا ہے تو اسے بھی قانون کا تحفظ حاصل ہے، قطع نظر کسی عہدہ یا پوزیشن کے ہر پاکستانی شہری قانون کے مطابق سلوک کا حقدار ہے۔