کراچی: (سچ خبریں) رواں ماہ 12 اکتوبر سے بندرگاہ حکام کی جانب سے محدود وزن کے ضوابط کے نفاذ کی وجہ سے درآمد شدہ گندم سے لدے ٹرکوں کی بندرگاہوں سے ریلیز معطل کردی گئی ہے، جس کے سبب صارفین کے لیے گندم اور آٹے کے ممکنہ بحران کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق فلور ملرز کو خدشہ ہے کہ بندرگاہوں پر درآمد شدہ گندم کی بندش سے آٹے کی مختلف اقسام کی قیمتوں میں اضافہ ہو جائے گا، جس کی وجہ کراچی اور دیگر ممالک میں فلور ملز تک اناج کی ترسیل کے بڑھتے ہوئے اخراجات ہیں۔
ملرز نے کہا کہ کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) کے محکمہ ٹریفک کی جانب سے کراچی پورٹ پر ایکسل لوڈ ریجیم کے نفاذ سے متعلق ایک خط اسٹیک ہولڈرز، کسٹم ایجنٹس اور ٹرمینل آپریٹرز کو 12 اکتوبر کو بھیجا گیا ہے۔
خط میں کہا گیا کہ وزن کرنے والی مشینیں نصب کرنے اور نیشنل ہائی وے اینڈ موٹروے پولیس (این ایچ ایم پی) کی جانب سے وزن کی طے کردہ حدود نافذ کرنے کے لیے چیئرمین کے پی ٹی کی زیرِ صدارت ٹرانسپورٹرز ایسوسی ایشنز کے ساتھ ایک اجلاس 11 اکتوبر کو کے پی ٹی ہیڈ آفس میں منعقد ہوا۔
اجلاس میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ ہائی وے سیفٹی آرڈیننس (این ایچ ایس او-2000) کے مطابق تمام بندرگاہوں پر نصب وزن کی پیمائش کرنے والی مشینوں پر طے شدہ وزن کی حد نافذ کی جائے گی، حوالہ اور عمل درآمد کے لیے قابل قبول حدود کی تفصیلات پر مشتمل کاپی بھی فراہم کی جائے گی۔
کے پی ٹی کے خط میں کہا گیا کہ بندرگاہ کے احاطے سے نکلتے وقت ایکسل کی گنجائش سے زیادہ وزنی ٹرکوں کو نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے ضوابط کی خلاف ورزی تصور کیا جائے گا اور ایسے ٹرکوں کو اب مزید اجازت نہیں دی جائے گی۔
چیئرمین لوکل گڈز ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن (ایل جی ٹی اے) پورٹ قاسم دین محمد نے کہا کہ پورٹ حکام نے گندم کی ترسیل کا وزن محدود کر دیا ہے، جس سے غذائی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ این ایچ ایم پی کے بجائے بندرگاہیں لوڈ کم کرنے کے لیے کیوں سرگرم ہو گئی ہیں؟ پورٹ قاسم پر 30 ٹرک اور کراچی پورٹ پر 35 سے 40 ٹرک پھنسے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ برآمدی کارگو کے لیے ابھی تک اس قسم کا کوئی آرڈر نہیں ہے اور صرف گندم اور لوہے سے متعلقہ اشیا کو اس قسم کے بحران کا سامنا ہے، ہم 2 روز انتظار کریں گے اور اگر یہ مسئلہ حل نہ ہوا تو ہم مستقبل کی حکمت عملی طے کریں گے۔
اُن سے سوال کیا گیا کہ کے پی ٹی کے محکمہ ٹریفک نے بتایا ہے کہ یہ فیصلہ کراچی کے ٹرانسپورٹرز کے ساتھ اجلاس کے بعد کیا گیا ہے، جواب میں دین محمد نے کہا کہ ایکسل لوڈ کے فیصلے کے حوالے سے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں نہیں لیا گیا ہے۔
پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن (پی ایف ایم اے) سندھ زون کے چیئرمین عامر عبداللہ نے بتایا کہ 55 ہزار ٹن وزنی 2 جہاز کراچی پورٹ پر لنگر انداز ہیں اور 55 ہزار ٹن سے لدا ایک جہاز پورٹ قاسم پر موجود ہے جبکہ دونوں بندرگاہوں پر 15 اکتوبر تک مزید 3 سے 4 جہاز پہنچیں گے۔
پورٹ قاسم پر ایل جی ٹی اے کے صدر محمد رمضان نے کہا کہ ٹرانسپورٹرز کا ایک گروپ بظاہر یہ بتا رہا ہے کہ ہلکا وزن لادکر سڑک کے بنیادی انفرااسٹرکچر کو کیسے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ درحقیقت وہ کم وزن لاد کر اور ٹرانسپورٹیشن کے بہت زیادہ اخراجات وصول کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جس سے صنعت اور صارفین دونوں پر منفی اثر پڑتا ہے۔
محمد رمضان نے کہا کہ اس وقت تقریباً ایک لاکھ ٹن لوہے کی متعلقہ اشیا مختلف ٹرکوں اور ٹرالروں میں بندرگاہ پر رکھی ہوئی ہیں جبکہ 80 ہزار سے ایک لاکھ ٹن سے لدے مزید بحری جہاز آئندہ 2 سے 3 روز میں بندرگاہوں پر پہنچنے کی توقع ہے۔
انہوں نے بتایا کہ 6 وہیلر (6 پہیوں والا) ٹرک اب 17.5 ٹن لے جاسکتا ہے، اس میں ٹرک پر لدے بوجھ کے ساتھ اس کا اپنا وزن بھی شامل ہے، اس سے پہلے یہ حد 25 ٹن تھی، مزید برآں 10 وہیلر (10 پہیوں والا) ٹرالر اب 27.5 ٹن وزن لے جاسکتا ہے جوکہ پہلے 45 ٹن وزن لے جاسکتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ این ایچ اے اور موٹروے پولیس کو اس صورتحال کو سنبھالنے دیں، حکومت کو اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بیٹھنا چاہیے کیونکہ ایکسل لوڈ کے نظام میں ترامیم کی ضرورت ہے۔