لاہور: (سچ خبریں) لاہور ہائیکورٹ کے جج نے توہین عدالت کی سزا سنانے کے لیے الیکشن کمیشن کو حاصل اختیارات کو چیلنج کرنے کی درخواست کا فیصلہ کرنے کے لیے چیف جسٹس کو ایک بڑا بینچ تشکیل دینے کی سفارش کی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق جسٹس عابد عزیز شیخ نے ریمارکس دیے کہ درخواست میں اہم قانونی نکات اٹھائے گئے ہیں جن کی سماعت لارجر بینچ کو کرنی چاہیے۔
انہوں نے اس کیس پر سماعت کے لیے لارجر بینچ تشکیل دینے کی استدعا کے ساتھ یہ کیس چیف جسٹس کو بھیج دیا۔
ستمبر میں ہونے والی ایک سماعت کے دوران جج نے مدعا علیہان کو نوٹس جاری کیے تھے اور اٹارنی جنرل پاکستان اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے الیکشن کمیشن کو توہین کی سزا دینے کے حاصل اختیارات پر رائے طلب کی تھی۔
درخواست گزار ملک شبیر اسمٰعیل نے اپنے وکیل اظہر صدیق کے توسط سے مؤقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ نے متعدد مقدمات میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ الیکشن کمیشن عدالت یا ٹریبیونل نہیں ہے، لہٰذا اسے سیکشن 10 کے تحت حاصل اختیارات کو آئین کے آرٹیکل 204 اور آرٹیکل 175 کی خلاف ورزی پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
الیکشن ایکٹ کے سیکشن 10 میں لکھا ہے کہ ’الیکشن کمیشن کسی بھی شخص کو توہین عدالت، توہین عدالت آرڈیننس یا توہین عدالت سے متعلق کسی دوسرے قانون پر سزا دینے کے لیے ہائی کورٹ کے برابر اختیار استعمال کر سکتا ہے، مذکورہ قانون کے تحت جو اختیارات عدالت یا جج کو حاصل ہیں اسی طرح الیکشن کمیشن، الیکشن کمشنر یا کیس کے مطابق الیکشن کمیشن کے رکن کو بھی حاصل ہو سکتے ہیں‘۔
وکیل نے استدلال کیا کہ آرٹیکل 175 واضح طور پر کہتا ہے کہ ہر صوبے کی ایک سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس ہوں گی اور ایسی دیگر عدالتیں بھی قانون کے مطابق قائم کی جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو ایک عدالت کے طور پر قائم نہیں کیا گیا، تاہم ایکٹ کے سیکشن 10 نے اس کے بغیر ہی الیکشن کمیشن کو عدالت کے برابر کا اختیار دے دیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سیکشن 10 کے تحت الیکشن کمیشن کی جانب سے دیا گیا کوئی بھی حکم سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔
وکیل نے استدعا کی کہ الیکشن ایکٹ 2017 کا سیکشن 10 آئین کی خلاف ورزی ہے، الیکشن کمیشن کو کالعدم سیکشن کے تحت کسی قسم کی کارروائی کرنے سے روکا جائے۔