اسلام آباد: (سچ خبریں) سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے وفاقی فوجی عدالتوں کو سویلینز کے مقدمات کا فیصلہ سنانے کی اجازت دینے سے متعلق حکومتی استدعا مستردکردی، جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس میں کہا کہ اجازت دینے کا مطلب فوجی عدالتوں کا اختیار تسلیم کرنا ہوگا۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ کی جانب سے سویلین کے ملٹری ٹرائل کے خلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت روکنے سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی۔
اس موقع پر وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا کہ یہ کہنا ہی غلط ہے کہ سویلینز کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل نہیں ہو سکتا، آرمی ایکٹ مسلح افواج کے ساتھ کام کرنے والی پرائیویٹ کمپنیز کےملازمین پر بھی لاگو ہوتا ہے، یا تو یہ شقیں بھی کالعدم کردیں پھر کہیں سویلینز کا وہاں ٹرائل ممکن نہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ وہ تو سویلین کی الگ قسم ہوتی ہے جو آرڈیننس فیکٹری وغیرہ میں کام کرتے ہیں، خواجہ حارث نے کہا کہ جی بالکل، آرمی ایکٹ سویلین کی کیٹیگری کی بات ہی کرتا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ کا کیس آرمی ایکٹ کی اس شق میں نہیں آتا، جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کور کمانڈرز جب اپنےگھر کو بطور دفتراستعمال کریں تو کیا اسے دفتر ڈیکلئیرکرتے ہیں؟ خواجہ حارث نے کہا کہ میں ایسے کسی نوٹیفکیشن کی طرف نہیں جا رہا۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے استفسار کیا کہ انسداد دہشت گردی عدالتوں نے ملزمان کی ملٹری کو حوالگی کیسے دی؟ کیا اے ٹی سی کورٹس کا وجوہات پر مبنی کوئی آرڈر موجود ہے؟
اس موقع پر سلمان اکرم راجہ نے موقف اپنایا کہ ہمیں بھی جسٹس منیب اختر کے تحریر کردہ فیصلے کے کچھ حصوں پر اعتراض ہے، اس پر دلائل دوں گا۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہاکہ اے پی ایس پر حملہ کرنے والوں کا ٹرائل کیسے چلا تھا، وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے بتایا کہ 21 ویں ترمیم ہوئی تھی جس کے بعد ٹرائل ہوا تھا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ اس وقت تو سویلین کیخلاف فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے لیے آئین میں ترمیم کی گئی تھی۔
جسٹس مسرت ہلالی نے نیاز اللہ نیازی سے استفسار کیا کہ کیا آپ کی ملاقات کرائی جا رہی ہے، جس پر نیاز اللہ نیازی نے کہاکہ جی ملاقات ہو رہی ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے کے سبب یرغمالی صورت حال سے دو چار ہیں، جسٹس امین الدین خان نے کہاکہ آپ یہاں تقریر نہ کریں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ فوجی عدالتوں میں ٹرائل مکمل ہو چکے ہیں، فوجی عدالتوں کو ٹرائل کے فیصلے سنانے کی اجازت دی جائے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ایسا نہیں کر سکتے، اگر ایسا کیا تو پھر فوجی عدالتوں کے سویلین ٹرائل کا اختیار سماعت ہی حل ہو جائے گا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ فوجی اہلکاروں کو کام سے روکنے کا جرم تو تعزیرات پاکستان میں موجود ہے، تعزیرات پاکستان کے تحت فوج کو کام سے روکنے والوں کا ٹرائل عام عدالتوں میں ہوگا۔
عدالت نے وفاقی فوجی عدالتوں کو مقدمات کا فیصلہ سنانے کی اجازت دینے کی حکومتی استدعا بھی مسترد کر دی، آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کا کیس کل تک ملتوی کردیا۔