سچ خبریں: پاکستان میں ہفتے کی رات اولمپیئن گولڈ میڈلسٹ ارشد ندیم کے استقبال کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے تھے۔
اگرچہ ان کی فلائٹ رات ایک بجے پہنچنی تھی، مگر لوگوں نے رات دس بجے ہی ایئرپورٹ کا رخ کرنا شروع کر دیا تھا۔
جب میں نے اس استقبال کی کوریج کے لیے ایئرپورٹ پہنچا تو گاڑیوں کی لمبی قطار کی وجہ سے آدھا گھنٹہ انتظار کرنا پڑا۔
یہ بھی پڑھیں: ارشد ندیم کی تاریخی کامیابی پر قومی اسمبلی کا ردعمل
ارشد ندیم کے لیے سٹیٹ لاؤنج کے سامنے پولیس اور اے ایس ایف کے جوانوں نے ایک مضبوط حفاظتی حصار قائم کر رکھا تھا، جس کے اندر عام افراد کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا، اور وہ اپنی فیملیز کے ساتھ بھی ایئرپورٹ پہنچنے لگے۔
قصور سے آئے محمد شکیل، جو اپنی بیوی بچوں کے ساتھ ارشد ندیم کا استقبال کرنے پہنچے تھے، نے کہا، "ہم بڑے شوق سے اس شخص کے استقبال کے لیے آئے ہیں جس نے پاکستان کا نام دنیا بھر میں روشن کیا ہے۔
فرانس میں پاکستان کا قومی ترانہ بجایا گیا، جسے پوری دنیا نے سنا ہے۔ میرا خیال تھا کہ جس بندے نے پاکستان کے لیے گولڈ میڈل جیتا ہے، اس کا شاندار استقبال ہونا چاہیے۔”
ان کے بیٹے نوید انجم نے بتایا کہ ان کے والد نے انہیں ایئرپورٹ جانے کی ترغیب دی، جس کی وجہ سے وہ اپنی پوری فیملی کے ساتھ یہاں آئے ہیں۔ تھوڑی دور لاہور کے ڈی ایچ اے سے آیا ہوا ایک اور خاندان بھی کھڑا تھا۔
خاندان کے سربراہ ملک احمد نے کہا، "میری بیٹی کو بہت شوق تھا کہ ہم ایئرپورٹ جا کر ارشد کا استقبال کریں۔
میں نے اسے سمجھایا کہ سب کچھ ٹی وی پر نظر آ جائے گا اور ہم گھر بیٹھ کر دیکھ سکتے ہیں، مگر وہ بضد تھی کہ ہمیں ایئرپورٹ جانا ہے، اس لیے ہم یہاں پہنچ گئے ہیں۔ اس گولڈ میڈل نے پاکستان کو عزت بخشی ہے۔”
ان کی بیٹی زہرہ نے بتایا کہ کچھ جاننے والے بھی ایئرپورٹ جا رہے تھے، اس لیے انہوں نے اپنے والد سے ضد کی کہ وہ بھی چلیں۔
"ہمارا خیال تھا کہ جلدی چلتے ہیں تاکہ رش سے بچ جائیں، لیکن یہاں تو بہت رش ہے۔ ہم اس لیے آئے ہیں کہ انہوں نے گولڈ میڈل جیتا ہے، اور ہم انہیں شاباش دینا چاہتے ہیں۔ میں اس سے پہلے کبھی کسی کا استقبال کرنے نہیں آئی۔”
رات 12 بجے کے قریب ایئرپورٹ پر لوگوں کا اتنا بڑا ہجوم جمع ہو چکا تھا کہ سکیورٹی انتظامات ناکافی محسوس ہونے لگے۔
پولیس کا سرکاری بینڈ بھی وہاں اپنے باجوں کے ساتھ موجود تھا۔ ایک بجنے سے پہلے ہی پنجاب کے صوبائی اور وفاقی حکومت کے وزرا بھی ایئرپورٹ پہنچنا شروع ہو گئے، جنہیں لاؤنج تک رسائی دے دی گئی۔
اسی دوران، میاں چنوں سے آئی ارشد ندیم کی فیملی کو بھی سیدھا وی آئی پی لاؤنج میں لے جایا گیا۔
ارشد ندیم کی فلائٹ تقریباً آدھا گھنٹہ تاخیر کا شکار ہوئی، جس کے باعث بیرون ملک جانے والے مسافر بھی یہ خواہش ظاہر کرتے نظر آئے کہ ان کے روانہ ہونے سے پہلے ارشد ندیم کی فلائٹ لینڈ کر جائے۔
محمد عقیل، جو مسقط جا رہے تھے، کو ان کے ساتھی زبردستی جہاز کی طرف لے جا رہے تھے کیونکہ ان کی فلائٹ کا وقت قریب تھا۔
اس دوران انہوں نے برجستہ کہا، "اللہ کرے ہماری فلائٹ لیٹ ہو جائے اور ہم ارشد ندیم کو قریب سے دیکھ سکیں۔”
پھر وہ لمحہ آیا جب ارشد ندیم کی فلائٹ نے لاہور ایئرپورٹ کے رن وے کو چھوا، اور پولیس کے بینڈ نے اپنی دھنیں بجانا شروع کیں۔
نوجوانوں کے فلک شگاف نعروں اور جوش و جذبے سے بھرپور شور نے ماحول کو جادوئی بنا دیا، جیسے ایئرپورٹ پیرس اولمپکس کے سٹیڈیم میں بدل گیا ہو۔
جہاز کو واٹر کینن کے ذریعے سلامی دی گئی، اور جیسے ہی ارشد ندیم لاؤنج سے باہر آئے، جوش سے لبریز مجمع نے تمام سکیورٹی حصار توڑ دیے۔
ہر کوئی اپنے ہیرو کو قریب سے دیکھنے کا خواہشمند تھا۔ جب صورتحال قابو سے باہر ہونے لگی تو سکیورٹی اہلکاروں نے ارشد ندیم کو واپس لاؤنج میں لے جانے کا فیصلہ کیا، کیونکہ انہیں باہر کھڑی ڈبل ڈیکر بس تک پہنچانا تقریباً ناممکن ہو چکا تھا۔
تقریباً آدھے گھنٹے بعد، لاؤنج سے بس تک دوبارہ سکیورٹی کا حصار بنایا گیا اور اس بار اے ایس ایف کے کمانڈوز نے ارشد ندیم کو صرف 30 سیکنڈ کے اندر اندر بس تک پہنچانے میں کامیابی حاصل کی۔
مزید پڑھیں: وزیر اعلیٰ پنجاب کا ارشد ندیم کو تحفہ
جیسے ہی ارشد ندیم نے بس کی چھت پر چڑھ کر ہاتھ ہلایا، مجمع ایک بار پھر جوش و خروش سے بھرپور نعرے بازی کرنے لگا۔
اسی پروٹوکول کے ساتھ، انہیں رنگ روڈ سے سیالکوٹ موٹر وے انٹرچینج تک لے جایا گیا، جہاں سے وہ دوسری گاڑی میں بیٹھ کر اپنے گاؤں میاں چنوں روانہ ہو گئے۔