سچ خبریں: پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا ہے کہ کسی بھی آپریشن کے لیے پارلیمان کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز قومی اسمبلی میں اپوزیشن رہنما ثنا اللہ مستی خیل نے پنجابی میں کچھ الفاظ کہے جو ان کی زبان سے غلطی سے نکل گئے تھے، لیکن ہم ان کا جواز پیش نہیں کریں گے۔ انہوں نے اپنے الفاظ پر معذرت کی جو کسی بھی ممبر قومی اسمبلی کے لیے بڑی بات ہے۔
یہ بھی پڑھیں: آپریشن عزم استحکام کی مخالفت کیوں؟
ان کا کہنا تھا کہ آپریشن استحکام شروع ہونے جا رہا ہے۔ پہلے بھی جب آپریشن ہو رہا تھا اور آئین میں ترمیم کی گئی تھی تو اس میں پارلیمان کے کردار کا ذکر تھا۔ کوئی بھی آپریشن ہو، چاہے انٹیلیجنس بیسڈ ہو یا کسی خاص مقصد کے لیے، اس کے لیے پارلیمان کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔ ہمیں پوائنٹ آف آرڈر میں یہ نقطہ نظر اٹھانا تھا کہ ہماری عسکری قیادت نے جیسے پہلے پارلیمان میں آکر ان کیمرہ بریفنگ دی، ویسے ہی اب بھی ہونا چاہیے۔ چاہے کوئی بھی کمیٹی ہو، وہ پارلیمان سے بالاتر نہیں ہوسکتی۔ کوئی بھی آپریشن پارلیمان کو اعتماد میں لیے بغیر شروع نہیں ہونا چاہیے۔
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ آج ہمیں یہ آرڈر اٹھانے نہیں دیا گیا قومی اسمبلی میں اس لیے ہم نے واک آؤٹ کیا۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز وزیر اعظم نے آپریشن ‘عزم استحکام’ کے آغاز کے ذریعے انسداد دہشت گردی کی قومی مہم کو دوبارہ متحرک کرنے کی منظوری دی تھی۔
2000 کی دہائی کے وسط سے پاک فوج کی طرف سے شروع کی جانے والی انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے سلسلے میں عزم استحکام نیا ہے۔ مزید حالیہ کارروائیوں میں ضرب عضب شامل ہے، جو 2014 میں جنرل راحیل شریف نے شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں سے نمٹنے کے لیے شروع کی تھی، اور ردالفساد، جو 2017 میں جنرل قمر جاوید باجوہ کی قیادت میں شروع کیا گیا تھا۔
اگرچہ ان کارروائیوں نے حکمت عملی سے کامیابیاں حاصل کیں، جن میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی اور اہم اہداف کا خاتمہ شامل ہے، لیکن وہ ملک سے عسکریت پسندی کو مکمل طور پر ختم نہیں کر سکیں۔
بعد ازاں سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم کسی طور پر کسی آپریشن کی حمایت نہیں کرسکتے۔ اس وقت قومی اسمبلی کا اجلاس جاری ہے، آپ اتنا بڑا فیصلہ کر رہے ہیں مگر پارلیمان کو خاطر میں نہیں لاتے تو یہ اتنا بڑا پارلیمان کس لیے ہے؟ میں نے کل مولانا سے بھی بات کی اور ابھی میں نے ایوان کے اندر خورشید شاہ اور رانا تنویر سے بھی بات کی ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟
اسد قیصر نے کہا کہ ہم سے کوئی مشاورت نہیں کی جاتی۔ بہت سے آپریشنز ہوچکے ہیں، آج تک کون سا آپریشن کامیاب ہوا ہے؟ ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف ہیں۔ ایک طرف یہ آپریشن کر رہے دوسری طرف فاٹا اور پاٹا پر ٹیکس لگا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آج میڈیا بھی کنٹرول ہے، پی ٹی وی کے لوگ خاص زاویے سے کیمرہ لگاتے ہیں اور چیزیں چلاتے نہیں ہیں۔ یہ مارشل لا کی ذہنیت ہے اور ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر کوئی فیصلہ ہوا ہے تو اسے پارلیمان میں لایا جائے اور پارلیمان کو اعتماد میں لیا جائے۔
مزید پڑھیں: لکی مروت: آپریشن کے دوران کالعدم ٹی ٹی پی کے 2 دہشت گرد ہلاک
بعد ازاں قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے رہنما عمر ایوب نے بتایا کہ میں آج اپنی سیٹ سے اٹھا اور بات کرنا چاہی مگر اسپیکر ایاز صادق نے ہمیں وقت نہیں دیا۔ میرا ان سے احترام کا رشتہ ہے مگر ان سے گلہ ہے کہ ان کا رویہ اپوزیشن کے ساتھ ٹھیک نہیں ہے۔ وہ کس دباؤ میں کام کر رہے ہیں یہ ہمیں معلوم نہیں۔ ہم اپنی عوام کی نمائندگی یہاں پر کر رہے ہیں۔