نوبل امن انعام،امتحان جس میں ڈونلڈ ٹرمپ فیل نظر آتے ہیں

ٹرمپ

?️

نوبل امن انعام،امتحان جس میں ڈونلڈ ٹرمپ فیل نظر آتے ہیں

 امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ حالیہ برسوں میں بارہا یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ وہ نوبل امن انعام کے اصل حقدار ہیں، لیکن بین الاقوامی ماہرین اور ناقدین کے مطابق اس عالمی اعزاز کے بنیادی معیار ٹرمپ کے کارناموں سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ نوبل انعام شخصی دعوؤں یا سیاسی دباؤ پر نہیں، بلکہ واضح اور قابلِ سنجش امن کوششوں پر دیا جاتا ہے، جن کا تسلسل عالمی سطح پر دیرپا اثرات پیدا کرے۔

ٹرمپ نے کئی مواقع پر کہا کہ ان کی صدارت کے دوران دنیا کے مختلف علاقوں میں کشیدگی میں کمی آئی اور متعدد تنازعات میں انہوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ ان دعوؤں نے اس وقت نئی بحث کو جنم دیا جب انہوں نے کچھ روز قبل فیفا کا ایک نیا تخلیق شدہ امن ایوارڈ حاصل کیا۔

ٹرمپ نے پہلی بار 2018 میں، شمالی کوریا کے ساتھ ڈپلومیسی کے دوران، کھل کر کہا تھا کہ وہ نوبل امن انعام کے اہل ہوسکتے ہیں۔ یہ وہ دور تھا جب انہوں نے بار بار دعویٰ کیا کہ دنیا انہیں اس انعام کے لائق سمجھتی ہے۔ بعد ازاں انہوں نے خود کو سابق صدر باراک اوباما سے بھی زیادہ مستحق قرار دیا اور ہر سیاسی اجتماع میں یہ شکوہ دہرایا کہ اگر ان کا نام اوباما ہوتا تو انہیں فوراً انعام دے دیا جاتا۔

سنہ 2021 سے 2024 تک، جب وہ صدارت سے باہر تھے، ان کے یہ بیانات اور بھی بڑھ گئے۔ وہ بعض مواقع پر دعویٰ کرتے کہ وہ ایک سے زیادہ نوبل انعاموں کے حقدار ہیں۔ انہوں نے مشرقِ وسطیٰ میں ابراہیم معاہدوں کو اور چند دیگر سفارتی کوششوں کو اپنی "امن ساز کامیابیوں” کے طور پر پیش کیا۔ 2025 میں دوسری مدتِ صدارت سنبھالنے کے بعد انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہیں یہ انعام کبھی نہیں ملے گا کیونکہ نوبل کمیٹی ان کے خلاف جانبدار ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نتن یاہو سے ملاقات میں انہوں نے اسے دوبارہ دہرایا۔

گزشتہ برس ٹرمپ نے ایک نیا اور وسیع دعویٰ کیا کہ انہوں نے اپنی صدارت کے دوران چھ یا سات جنگیں ختم کرائیں۔ ان کے مطابق بھارت اور پاکستان، مصر اور ایتھوپیا، صربستان اور کوسوو، آرمینیا اور آذربائیجان، روانڈا اور کانگو اور حتیٰ کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان تناؤ کم کرنے میں ان کا کردار فیصلہ کن رہا۔

غیر ملکی ماہرین ان دعوؤں کو مبالغہ آرائی اور انتخابی پروپیگنڈا قرار دیتے ہیں، کیونکہ کسی بھی مستند بین الاقوامی ریکارڈ یا سرکاری معاہدے میں ٹرمپ حکومت کا ایسا کردار ثابت نہیں ہوتا۔ کئی ممالک ان دعوؤں سے متعلقہ دورانیے میں جنگ میں شامل ہی نہیں تھے یا ان کی صورت حال امریکی مداخلت سے نہیں بلکہ علاقائی عوامل سے متاثر تھی۔

بین الاقوامی پالیسی کے ماہرین کے مطابق ٹرمپ کی پہلی صدارت کا نمایاں پہلو عالمی معاہدوں سے علیحدگی اور سخت گیر خارجہ پالیسی تھی۔ ان کے دور میں امریکہ برجام، پیرس ماحولیاتی معاہدے اور میزائل کنٹرول کے اہم معاہدے سے نکل گیا، جس نے عالمی کشیدگی میں اضافہ کیا۔

ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی، شمالی کوریا کو فوجی دھمکیاں اور نیٹو اتحادیوں کے ساتھ بے مثال تناؤ بھی ان کی سفارتی کارکردگی کو منفی انداز میں پیش کرتے ہیں۔ ناقدین کے مطابق یہ اقدامات امن کے فروغ کے بجائے عالمی عدم استحکام میں اضافے کا باعث بنے۔

ٹرمپ کے دعوؤں میں نمایاں ترین مثال شمالی کوریا کے ساتھ مذاکرات تھی، جسے ابتدا میں کافی توجہ ملی، لیکن وہ کسی دیرپا معاہدے میں تبدیل نہ ہوسکی۔ مشرقِ وسطیٰ میں بھی صورت حال میں وہ تبدیلی نہیں آئی جو ایک حقیقی امن کوشش کے نتیجے میں آتی ہے۔

امریکہ میں ہونے والے سروے بھی ٹرمپ کے دعووں سے متفق نہیں۔ مختلف جائزوں کے مطابق زیادہ تر امریکی شہری سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ نوبل امن انعام کے اہل نہیں۔ ماہرین اسے ٹرمپ کی سیاسی بیان بازی اور عوامی تاثر میں واضح تضاد قرار دیتے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نوبل امن انعام حقیقی، ثابت شدہ اور دیرپا امن کوششوں کا اعتراف ہے۔ ان کے مطابق ٹرمپ کی کارکردگی اور بیانات میں اس معیار کی جھلک نظر نہیں آتی۔ ناقدین کے نزدیک ٹرمپ کا نوبل انعام کا مطالبہ ایک سیاسی حکمت عملی زیادہ ہے، جس کا مقصد انہیں داخلی سیاست میں ایک عالمی امن ساز رہنما کے طور پر پیش کرنا ہے، جبکہ زمینی حقائق اس بیانیے کی تائید نہیں کرتے۔

مشہور خبریں۔

ایک ہزار بین الاقوامی مصنفین کی جانب سے اسرائیلی ثقافتی اداروں کا بائیکاٹ

?️ 29 اکتوبر 2024سچ خبریں: Yediot Aharanot نے اعلان کیا کہ دنیا کے مختلف حصوں

امریکی ملک نہیں چھوڑتے ہیں تو ہمارے پاس انھیں ملک بدر کرنے کے نئے منصوبے ہیں: الحشد الشعبی

?️ 9 فروری 2021سچ خبریں:الحشد الشعبی تنظیم کے نائب چیف آف اسٹاف نے کہا ہے

پچھلے24 گھنٹے میں کتنے صیہونی فوجی زخمی ہوئے ہیں؟صیہونی فوج کا اعلان

?️ 6 جنوری 2024سچ خبریں: اسرائیلی فوج نے غزہ کے خلاف جنگ میں گزشتہ 24

میں اور یاسر اپنی اپنی والدہ کے جنازوں میں شریک نہ ہوسکے تھے، ندا یاسر

?️ 27 فروری 2024کراچی: (سچ خبریں) اداکارہ، پروڈیوسر و ٹی وی میزبان ندا یاسر نے

تل ابیب بڑے پیمانے پر جنگ میں داخل ہونے کے لیے تیار نہیں

?️ 8 اگست 2024سچ خبریں: عبرانی زبان کے اخبار اسرائیل ہیوم نے رپورٹ کیا کہ

امریکہ میں حکومتی شٹ ڈاؤن نے فوجی اہلکاروں کو مفت کھانے کی قطاروں میں لا کھڑا کیا

?️ 13 اکتوبر 2025سچ خبریں:امریکہ میں حکومت کی طویل تعطیلی نے ہزاروں وفاقی ملازمین اور

ترکی کی حکمران جماعت کی کمزوری کیا ہے؟

?️ 15 فروری 2025 سچ خبریں: ترکی کے بعض سیاسی اور میڈیا حلقوں نے اعلان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے