?️
عراق میں پارلیمانی انتخابات، کڑا امتحان یا آسان مرحلہ؟
عراقی عوام 11 نومبر کو اپنے چھٹے پارلیمانی انتخابات کے لیے ووٹ ڈالنے جا رہا ہے یہ انتخابات 2003 میں صدام حسین کی حکومت کے خاتمے کے بعد ہونے والے سیاسی ادوار میں ایک اہم موڑ تصور کیے جا رہے ہیں۔
تین ہفتے بعد ہونے والے یہ انتخاب اس لیے خاص اہمیت رکھتے ہیں کہ عراقی پارلیمان نہ صرف صدر کا انتخاب کرتی ہے بلکہ وزیرِاعظم کی نامزدگی کی توثیق بھی کرتی ہے۔ اس کے نتائج حکومت کی مقبولیت، کارکردگی اور عوامی اعتماد کا پیمانہ سمجھے جائیں گے۔
اس بار انتخابات میں ۳۷ سیاسی اتحاد، ۳۸ جماعتیں اور ۸۰ آزاد امیدوار پارلیمان کی ۳۲۹ نشستوں کے لیے میدان میں ہیں۔
اہم اتحادوں میں وزیراعظم محمد شیاع السودانی کی قیادت میں تعمیر و ترقی کا اتحاد نمایاں ہے، جس کا منشور اقتصادی اصلاحات، انسدادِ بدعنوانی اور سیاسی استحکام پر مبنی ہے۔
دوسری طرف نوری المالکی کا “دولتِ قانون” اور هادی العامری کا “ائتلاف فتح” بھی بڑے شیعہ اتحادوں میں شمار ہوتے ہیں۔کرد جماعتوں میں اتحاد میهنی کردستان اور حزب دموکرات کردستان روایتی حریف کے طور پر انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔
ملک بھر میں انتخابی جوش و خروش عروج پر ہے۔ سڑکوں، بازاروں اور عمارتوں پر امیدواروں کے پوسٹرز اور بینرز آویزاں ہیں، جلسے جلوس جاری ہیں، اور عوامی مباحثے سیاسی رنگ اختیار کر چکے ہیں۔
تاہم، صدر تحریک کی عدم شرکت اس انتخابی عمل کو پہلے سے مختلف بنا رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر گروہ کے بائیکاٹ سے حکومت سازی کا عمل یا تو آسان ہو سکتا ہے یا مزید پیچیدہ۔
انتخابات سے قبل تشدد کے واقعات نے تشویش پیدا کر دی ہے۔ چند ہفتے پہلے اہل سنت اتحاد "السیادہ” کے امیدوار صفا المشهدانی بم دھماکے میں ہلاک ہو گئے۔
اسی طرح، مثنی العزاوی کے دفتر پر مسلح حملہ ہوا جس میں ان کے دو محافظ زخمی ہوئے۔ عزاوی نے واقعے کو بزدلانہ اقدام قرار دیتے ہوئے کہا کہ قانون سب سے بالا ہے اور حملہ آور جلد سزا پائیں گے۔
کردستان ریجن میں عوامی ناراضی اور کمزور حکمرانی کے باعث اس بار ووٹ ڈالنے کی شرح کم رہنے کا خدشہ ہے۔شیعہ اکثریتی علاقوں میں بھی اقتصادی بدحالی، بدعنوانی اور سست رفتار تعمیر نو کے سبب عوامی اعتماد میں کمی آئی ہے۔
البتہ، انتخابی کمیشن کے اس فیصلے کہ ہر صوبہ اب ایک ہی انتخابی حلقہ ہوگا، نے چھوٹے اتحادوں کے لیے موقع پیدا کیا ہے کہ وہ اپنی اصل عوامی قوت آزما سکیں۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق، ووٹر ٹرن آؤٹ کی شرح 40 فیصد کے قریب رہنے کا امکان ہے جو 2021 کے انتخابات کے برابر ہوگی۔2005 میں ووٹر ٹرن آؤٹ 76 فیصد تھا، مگر یہ شرح مسلسل کم ہوتی ہوئی اب نصف سے بھی نیچے آ چکی ہے۔
سیاسی مبصر جمعہ العطوانی کا کہنا ہے کہ موجودہ انتخابات میں بھی طاقت کا توازن زیادہ نہیں بدلے گا۔ شیعہ، سنی اور کرد تینوں بڑے سماجی گروہ اپنی روایتی نشستیں برقرار رکھیں گے، البتہ مخلوط علاقوں جیسے بغداد، کرکوک اور دیاله میں چند نشستوں پر تبدیلی ممکن ہے۔
Short Link
Copied


مشہور خبریں۔
غزہ شہداء کی تازہ ترین تعداد
?️ 6 اپریل 2024سچ خبریں: فلسطین کی وزارت صحت نے ایک بیان جاری کرکے غزہ
اپریل
سردیوں میں گیس کی فراہمی کے لئے تیار کی گئی ہے
?️ 14 نومبر 2021اسلام آباد (سچ خبریں) وزارت پیٹرولیم اور سوئی ناردرن گیس کمپنی کی
نومبر
کیا صیہونیوں کا شام تقسیم کرنے کا منصوبہ ہے؟
?️ 6 مارچ 2025 سچ خبریں:اسرائیل شام میں استحکام پیدا کرنے یا امن قائم کرنے
مارچ
ترکی کو عالمی بینک کی ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی امداد؛ شام کا حصہ صفر
?️ 11 فروری 2023سچ خبریں:عالمی بینک کے سربراہ نے اس ملک میں مہلک زلزلے سے
فروری
جیل میں بندھ سیاسی رہنما کہاں ووٹ ڈالیں گے
?️ 3 مارچ 2021اسلام آباد(سچ خبریں) سینیٹ انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لیے اپوزیشن جماعتوں
مارچ
بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کو قتل کرنے کی کوشش، 14 دہشت گردوں کو سزائے موت سنادی گئی
?️ 23 مارچ 2021ڈھاکا (سچ خبریں) سنہ 2000 میں بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ
مارچ
غزہ میں موجود صیہونی قیدی ایک بار پھر نیتن یاہو کے لیے درد سر
?️ 30 ستمبر 2024سچ خبریں: عبرانی زبان کے ایک اخبار نے صیہونی حکومت کے وزیر
ستمبر
ٹرمپ کی واپسی سے سب سے زیادہ پریشان کون ہے؟
?️ 18 نومبر 2024سچ خبریں: بین الاقوامی امور کے ماہر عباس اصلانی نے ایک نوٹ
نومبر