سچ خبریں:عرب زبان تجزیہ نگار نے فلسطین میں جاری کئی اہم واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ غاصب حکومت کی کابینہ کے حالیہ فاشسٹ رویے کے برعکس نتائج برآمد ہوئے ہیں جس کے بعد فلسطین میں کہیں بھی صیہونیوں کے لیے سلامتی اور استحکام نہیں ہوگا۔
عرب دنیا کے معروف تجزیہ کار اور انٹر ریجنل اخبار رائے الیوم کے چیف ایڈیٹر عبدالباری عطوان نے اپنے نئے کالم میں مقبوضہ فلسطین پیش آنے والی حالیہ صورتحال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایسے وقت میں جب کہ عرب اور اسلامی دنیا ترکی اور شام اور 40 ہزار سے زائد افراد کی ہلاکت اور 60 ہزار سے زائد عمارتوں کی تباہی لانے والے میں زلزلے میں پھنسے ہوئے ہیں،فلسطین میں 3 اہم صورتحال دیکھنے کو مل رہی ہیں جن کے مستقبل قریب میں خطرناک نتائج سامنے آ سکتے ہیں:
1۔ پہلا مسئلہ امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن اور اس ملک کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان کے ذریعے ریاستہائے متحدہ کا اردن کی حکومت پر اگلے ماہ مراکش میں منعقد ہونے والے Negev 2 سربراہی اجلاس میں شرکت کرنے پر مجبور کرنے کے لیے شدید دباؤ ہے ، شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ اردن کی حکومت واشنگٹن کے ان دباؤ کے سامنے جھک گئی ہے۔
2۔ دوسرا مسئلہ صیہونی حکومت کی نئی کابینہ کے منصوبوں سے سرمایہ کاروں کو خوفزدہ کرنے پر مبنی اسرائیلی بینکوں کے سربراہوں کی تنبیہ جس نے ان سرمایہ کاروں کو نقصان پہنچایا ہے اور وہ مقبوضہ فلسطین چھوڑنے کا سوچ رہے ہیں نیز عدلیہ میں بنیادی تبدیلیاں کرنے کے ساتھ ساتھ سکیورٹی کے فقدان سے متعلق ہے۔
3۔ لیکن تیسرا مسئلہ اس قانون سے متعلق ہے جسے صیہونی حکومت کی Knesset نے حال ہی میں منظور کیا ہے جس کے مطابق مقبوضہ بیت القمدس اور 1948 کے مقبوضہ علاقوں میں فلسطینی کارکنوں کی شہریت یا رہائش منسوخ کرکے انہیں جبری طور پر مغربی کنارے یا غزہ کی پٹی میں بھیج دیا جائے گا۔
اس تجزیہ کے مطابق، اردنی حکام النقب2 سربراہی اجلاس کے لیے فلسطینی کور چاہتے ہیں، جس طرح انھوں نے اوسلو معاہدے کو "وادی عرب” معاہدے پر دستخط کرنے کے بہانے کے طور پر استعمال کیا، اب بھی وہ مغرب میں ہونے والی النقب2 سربراہی کانفرنس میں اپنی شرکت کو فلسطینی اتھارٹی کی موجودگی سے مشروط کر رہے ہیں ہیں۔
یاد رہے کہ امریکی وزیر خارجہ کے مشیر اور عرب اسرائیل تنازعہ کے معاملے میں امریکہ کے نمائندے ہادی عمر نے جو اس وقت مقبوضہ بیت المقدس میں مقیم ہیں، نے فلسطینی اتھارٹی کے عہدیداروں سے رابطہ کیا ہے اور انہیں النقب اجلاس شرکت کی دعوت دی ہے۔