سچ خبریں:افغان صدر نے جرمنی کے اسپیگل میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اگر مغربی ممالک طالبان کی سرپرستی کرنا چھوڑ دیں تو یہ گروپ امن کا آپشن منتخب کرے گا۔
افغانستان کی فارس نیوز ایجنسی کے نامہ نگار کی رپورٹ کے مطابق افغان صدر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ وہ صرف اسی صورت میں 7000 طالبان قیدیوں کو رہا کرنے پر راضی ہوں گےکہ یہ اقدام ایک جامع امن کا باعث بنے، جرمن میگزین اسپیگل کو ایک خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے افغان صدر نے مزید کہا کہ اگر مغربی ممالک طالبان کی حمایت کرنا بند کردیں تو یہ گروپ امن کا انتخاب کرے گا۔
غنی نے پاکستان کے ساتھ ممکنہ سکیورٹی معاہدے کو امن کے لئے اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ امن یا دشمنی کا معاملہ پاکستان کے ہاتھ میں ہے، انہوں نے زور دے کر کہا ، خطے میں امن کے بارے میں پہلا فیصلہ کیا جائے گاجس میں سب سے اہم بات پاکستان کو لانا ہے، اب امریکہ کا ایک چھوٹا سا کردار باقی رہ گیا ہے،امن یا دشمنی کا سوال پاکستان کے ہاتھ میں ہے، افغانستان کے صدر کے مطابق طالبان پر پاکستان کا اثر و رسوخ بہت زیادہ ہے۔
غنی نے کہا کہ پاکستان میں طالبان کی حمایت کا باقاعدہ نظام موجود ہےجس میں رسد ، مالی اعانت اور طالبان کی بھرتی شامل ہے، طالبان کی فیصلہ سازی کرنے والے اداروں کے نام کوئٹہ کمیٹی ، میران شاہ کمیٹی اور پشاور کمیٹی ہیں جن کا پاکستانی حکومت سے گہرا تعلق ہے، یہ پوچھے جانے پر کہ کیا امن کے لیے کس چیز سےطالبان کی حوصلہ افزائی ہوسکتی ہے ، افغان صدر نے کہاکہ طالبان کے لیے مغربی ڈپلومیسی کو روکنا ضروری ہے، طالبان مجرم ہیں اور انہوں نے بے گناہ لوگوں کو قتل کیا ہے،جیسے کچھ دن پہلے ہی کابل میں لڑکیوں کے اسکول پر حملہ ہوا تھا۔
غنی نے اس بارے میں کہا کہ آیا وہ افغانستان سے چلے جائیں گے ، کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ میں موت سے صرف ایک گولی دور ہوں ، میری زندگی کو ختم کرنے کی بہت ساری کوششیں کی گئیں، لیکن افغانستان جنوبی ویتنام نہیں ہے،اب دنیا کی کوئی بھی طاقت مجھے اپنا ملک چھوڑنے کی ترغیب نہیں دلا سکتی ہے۔