سچ خبریں: طوفان الاقصی آپریشن، جسے آیت اللہ خامنہ ای نے تباہ کن زلزلہ قرار دیا، غاصب حکومت کے کچھ اہم ڈھانچے کو تباہ کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔
7 اکبوبر2023 کا دن مغربی ایشیائی خطے کی سیاسی تاریخ میں ہمیشہ باقی رہے گا،اس دن فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک (حماس) کے مجاہدین نے صیہونی حکومت پر حملہ کرکے اس جعلی حکومت کی 75 سالہ تاریخ کی سب سے بڑی شکست سے دوچار کیا۔
یہ بھی پڑھیں: ہارورڈ کے طلبہ کی نظر میں طوفان الاقصی کا ذمہ دار کون ہے؟
آیت اللہ خامنہ ای نے 10 اکتوبر کو مسلح افواج کی یونیورسٹیوں کے افسر طلباء کی گریجویشن تقریب میں اپنے خطاب میں طوفان الاقصی کا ذکر کیا اور اس کی وضاحت کی، ان کی تقریر کی 4 جہتیں تھیں جو درج ذیل ہیں۔
1۔ ناقابل تلافی ناکامی
پہلی جہت یہ ہے کہ صیہونی حکومت کو اپنی تاریخ کی سب سے بھاری شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے،جعلی صیہونی حکومت نے ہمیشہ اپنی ایک ایسی تصویر پیش کی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مغربی ایشیائی خطے میں خاص طور پر فوج اور انٹیلی جنس کے مضبوط ترین اداکاروں میں سے ایک ہے، درحقیقت اسی انٹیلی جنس اور فوجی شناخت کی وجہ سے بیت المقدس کی قابض حکومت نے اپنے لیے ایک میڈیا اور رائے عامہ پر قبضہ کر لیا نیز یہ عنصر صیہونی حکومت کے ساتھ بعض ممالک کے تعلقات کو معمول پر لانے کا ایک سبب تھا لیکن 7 اکبوبر کو یہ شناخت ختم ہو گئی جب صیہونی حکومت کو ایک بڑے انٹیلی جنس، سکیورٹی اور فوجی حیرت اور صدمے کا سامنا کرنا پڑا، جس کے بعد اس نے اپنی خفت کم کرنے کے لیے طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد غزہ کے خلاف جو تشدد اور ہمہ گیر حملے کیے، وہ اس بڑی شکست پر فوجی عقلی حکمت عملی سے زیادہ غصے کا ردعمل تھا۔
7 اکبوبر2023 کو غاصب صیہونی حکومت کی فوجی اور انٹیلی جنس ساکھ تباہ ہو گئی، درحقیقت طوفان الاقصی کو صیہونی حکومت کی انٹیلی جنس اور عسکری تنظیموں کی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے اس کے نتیجہ میں ان اداروں میں ممکنہ طور پر سنگین تبدیلیاں رونما ہوں گی،طوفان الاقصی کے بعد غزہ کی پٹی کے خلاف اس حکومت کے حملے اس عظیم شکست کی ذلت کو کم کرنے اور اپنے اعتبار کو بحال کرنے کے لیے کیے گئے لیکن آیت خامنہ ای کا کہنا تھا کہ 7 اکتوبر کو صیہونی غاصب حکومت کو فوجی اور انٹیلی جنس دونوں لحاظ سے ناقابل تلافی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے،انہوں نے کہا کہ سب نے کہا ہے ناکامی لیکن میں ناقابل تلافی پر زور دیتا ہوں،میں کہتا ہوں کہ اس تباہ کن زلزلے نے غاصب حکومت کے کچھ اہم انتظامی ڈھانچے کو تباہ کر دیا ہے، جنہیں اتنی آسانی سے دوبارہ تعمیر نہیں کیا جا سکتا۔
2. الاقصیٰ طوفان؛ غاصب حکومت کے جرائم کے خلاف حماس کا جائز دفاع
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ صیہونی حکومت کے خلاف ہمہ قسم کے فوجی حملے میں حماس کی کاروائی جائز دفاع تھی،ان حملوں کی اصل وجہ فلسطینیوں کے خلاف صیہونی حکومت کے جرائم کا تسلسل ہے جو خاص طور پر بنیامین نیتن یاہو کی نئی کابینہ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد شدت اختیار کر گئے اس لیے کہ اس کابینہ کے انتہا پسند اور نسل پرست عناصر سرکاری طور پر نسل پرستانہ خیالات، رجحانات کے حامل ہیں جن کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کو فلسطین سے نکال دیا جائے، اس کے ساتھ ساتھ وہ مسجد اقصیٰ میں ہر روز فلسطینیوں کے ساتھ جھڑپیں کرتے ہیں، اس کے علاوہ غزہ کی پٹی 2007 سے صیہونی حکومت کے وسیع محاصرے میں ہے، ایک ایسا محاصرہ جس نے غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل میں تبدیل کر دیا ہے جو یہاں کے لوگوں کے لیے انسانی تباہی کا باعث بنا ہے،اس لیے صیہونی حکومت کے خلاف حملے میں حماس کی کاروائی جائز دفاع کی ایک شکل تھی جو اس جعلی حکومت کی شرارت کا جواب ہے۔
اس سلسلے میں آیت اللہ خامنہ ای کا کہنا ہے کہ صہیونیوں کے ہی جرائم ان کے گلے پڑے ہیں، ظلم اور جرم جب حد سے گزر جائے، جب بے حسی اپنے عروج پر پہنچ جائے تو طوفان کا انتظار کرنا چاہیے، تم نے فلسطینی قوم کے ساتھ کیا کیا؟ فلسطینیوں کا بہادرانہ اور بے لوث اقدام غاصب دشمن کے اس جرم کا جواب تھا، جو برسوں سے جاری تھا اور حالیہ مہینوں میں اس کی شدت میں اضافہ ہوا، اس کی ذمہ دار بھی موجودہ غاصب صیہونی حکومت ہے،دنیا کی حالیہ تاریخ میں، جہاں تک ہم جانتے ہیں کہ دنیا کے اس حالیہ دور میں، [یعنی] پچھلے سو سال یا اس سے زیادہ عرصے میں، کسی بھی اسلامی قوم نے ایسے دشمن کا سامنا نہیں کیا جس کا آج فلسطینیوں کو سامنا ہے،اس طرح کے برائی کے مرکز،کینہ توز ،ظالم و جابر اور خونخوات دشمن کا کبھی بھی اسلامی اقوام اور اسلامی ممالک کو سامنا نہیں کرنا پڑا۔
3. مظلوم نمائی اپنے جرم کو جواز فراہم کرنا ہے
آیت اللہ خامنہ ای کی تقریر کا تیسرا نکتہ اس واقعے میں صیہونی حکومت کا اپنے آپ کو مظلوم ظاہر کرنے کی کوششوں کو بے اثر کرنا تھا اس لیے کہ صیہونی حکومت اور اس کے حامیوں کا ایک طریقہ اپنے آپ کو مظلوم بنا کر پیش کرنا ہے، طوفان الاقصیٰ آپریشن نے اس ناجائز حکومت کو اس کی تاریخ میں سب سے زیادہ انسانی جانی نقصان پہنچایا،تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اس حملے میں 1200 سے زائد صہیونی ہلاک اور 2000 سے زائد افراد زخمی ہوئے جن میں سے کئی کی حالت تشویشناک ہے۔
واضح رہے کہ صیہونی حکومت اور اس کے بعض حامیوں نے جانی انسانی نقصان کے اس اعداد و شمار کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں نے یہودیوں کی عید کے موقع پر ان پر حملہ کیا گیا تاکہ اس طرح اپنے آپ کو مظلوم ظاہر کرکے غزہ کے لوگوں کے خلاف ظلم و جبر اور ہمہ گیر حملے اور ایک نئے جرم کی بنیاد فراہم کی جا سکے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صیہونی حکومت ایک مجرمانہ حکومت ہے،1948 سے صیہونیوں نے فلسطینیوں کی زمینوں اور گھروں کو ضبط کر لیا اور مظلوم فلسطینی عوام کو ان کے گھروں سے جلاوطن کر دیا، انہوں نے فلسطینیوں کے خلاف عظیم جرائم کا ارتکاب کیا، جیسا کہ دیریاسین جرم، جس میں انہوں اس گاؤں کی سینکڑوں خواتین اور بچوں کا قتل عام کیا، صبرہ اور شتیلا جہاں انہوں نے لبنان میں فلسطینی پناہ گزینوں کے خلاف درندگی کا مظاہرہ کیا۔
مزید پڑھیں: طوفان الاقصی آپریشن کیوں شروع ہوا؟
صرف 2008 سے اب تک صہیونی حملوں کے نتیجے میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد فلسطینی شہید اور زخمی ہو چکے ہیں،تاہم، یہ مجرم حکومت مظلوم ہونے کا دعویٰ کرتی ہے، ایک ایسی صفت جو آیت اللہ خامنہ ای کی نظر میں اس حکومت کے لیے موزوں نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ قابض حکومت نے مظلوم نمائی کو بہانے کے طور پر استعمال کیا تاکہ وہ اس کی آڑ میں غزہ کے لوگوں کا قتل عام کر سکے نیز ان کے گھروں کو تاراج کر سکے،وہ مظلوم ہونے کا بہانہ کرکے ان جرائم کو جواز فراہم کرنا چاہتا ہے جبکہ یہ بھی ایک غلط حساب ہے۔ غاصب حکومت کے سربراہان اور فیصلہ سازوں نیز ان کے حامی جان لیں کہ یہ ان کے لیے ایک بڑی آفت لائے گا،انہوں معلوم ہونا چاہیے کہ ان مظالم کا ردعمل ان کے بدصورت چہروں پر ایک بھاری طمانچہ کی صورت میں سامنے آئے گا۔
4. طوفان الاقصیٰ کو ایران سے منسوب کرنا؛ ذلت کو کم کرنے کا ایک حربہ
چوتھا نکتہ صیہونی حکومت اور اس کے حامیوں کی حماس کے اقدامات کو کم کرنے کی کوشش تھی۔ صیہونی حکومت اور اس کے بعض حامیوں نے دعویٰ کیا کہ طوفان الاقصی آپریشن کی منصوبہ بندی اسلامی جمہوریہ ایران نے کی اور حماس نے اسے عملی جامہ پہنایا، ان کا کہنا ہے کہ حماس تنہا اس سطح پر کاروائیاں نہیں کر سکتی ہے،اس قسم کا دعویٰ کرنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ صیہونی حکومت اور اس کے حامی اس شکست کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ انہیں اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج جیسی بڑی فوج نے اسے شکست دی ہے نہ کہ حماس نامی ایک گروہ کے مجاہدین نے، آیت اللہ خامنہ ای نے 10 اکتوبر کو آرمی آفیسر یونیورسٹی میں مسلح افواج کے افسر طلباء کی مشترکہ گریجویشن تقریب میں اپنے خطاب میں صیہونیوں کے اس ہتھکنڈے کو بے اثر اور باطل قرار دیتے ہوئے کہا کہ صیہونی حکومت کے حامی اور اس غاصب حکومت کے کارندے دو تین دنوں سے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس تحریک کے پیچھے ایران کا ہاتھ ہے جکبہ وہ غلط ہیں، بلاشبہ ہم فلسطین اور جدوجہد کا دفاع کرتے ہیں،ہم بہادر فلسطینی نوجوانوں کی پیشانیوں اور ہاتھوں کو چومتے ہیں اور ان پر فخر کرتے ہیں لیکن جو لوگ کہتے ہیں کہ فلسطینیوں کا کام غیر فلسطینیوں کی وجہ سے ہے وہ فلسطینی قوم کو نہیں جانتے ، انہوں نے فلسطینی قوم کو کم تر سمجھا؛ یہ ان کی غلطی ہے، وہ یہاں غلط حساب لگاتے ہیں۔
نتیجہ
آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ صیہونی حکومت غزہ کی پٹی کے خلاف ہمہ گیر حملوں اور بے گناہ لوگوں بالخصوص خواتین اور بچوں کے قتل عام سے اس عظیم شکست کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن میں اسے طوفان الاقصیٰ آپریشن کی شکل میں حماس کی جانب سے لگنے والے بڑے دھچکے اور آیت اللہ خامنہ ای کی نظر اس تباہ کن زلزلے نے غاصب حکومت کے بنیادی انتظامی ڈھانچے کو تباہ کر دیا ہے، جنہیں آسانی سے دوبارہ تعمیر نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ انہوں نے کہا کہ صیہونی حکومت سابقہ صیہونی حکومت نہیں رہی اور اسے جو دھچکا پہنچا ہے اس کی اتنی آسانی سے تلافی نہیں کی جا سکتی۔