سچ خبریں:لبنانی سیاسی تجزیہ کار کا خیال ہے کہ ایران میں اسلامی انقلاب نے علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر طاقت کے توازن کو تبدیل کردیا۔
لبنان کے سیاسی تجزیہ کار انیس نقاش کا کہنا ہے کہ اسلامی انقلاب کی فتح سے قبل اور شاہی حکومت کے خلاف سلسلہ وار عوامی مظاہروں کے دوران مظاہرین نے شاہ کے خلاف محض نعرے بازی نہیں کی اور اس وقت کی معاشی و معاشرتی صورتحال کے خلاف بھی نعرے نہیں لگائے بلکہ زیادہ تر نعرے در حقیقت امریکہ اور مغربی ممالک پر شاہی حکومت کےانحصار کے خلاف تھے، اس وقت کی سب سے خطرناک پالیسی صیہونی حکومت کے لئے شاہی حکومت کی حمایت تھی، ایک ایسی حکومت جس کو ایرانی عوام نے مقبوضہ فلسطین کی سرزمین کے ساتھ ساتھ اسلامی پناہ گاہوں کا بھی غاصب سمجھا۔
ایرانی اسکالرز اور شہد بہشتی سمیت ایران کے اسلامی انقلاب کی نامور شخصیات سبھی نے شاہی حکومت کے ذریعہ صہیونیوں کی حمایت حوالہ دیا ہے،در حقیقت ، تل ابیب کی حمایت کرنا شاہی حکومت کے ایک اہم ستون میں شامل تھا، لبنانی سیاسی تجزیہ کار نے بھی اس بات پر زور دیاکہ اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد ہم نے دیکھا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے صہیونی حکومت اور ریاستہائے متحدہ امریکہ کے ساتھ تعلقات مکمل طور پر منقطع ہوگئے ، اس سے ظاہر ہوا کہ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر طاقت کے توازن میں ایک اسٹریٹجک تبدیلی ہوئی ہے۔
نقاش نےیہ بھی بتایاکہ اس اسٹریٹجک تبدیلی کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ شاہی حکومت کا ریاستہائے متحدہ امریکہ اور صہیونی حکومت کی پالیسیوں میں ایک خاص مقام تھا لیکن اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد ایران فلسطینیوں کا سب سے بڑا حامی بن گیا ،طاقت کے توازن کو تبدیل کرنے کے میدان میں ہم کبھی بھی فراموش نہیں کریں گے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے تعاون سے لبنانی مزاحمت اسرائیلی حکومت کو شکست دینے میں کامیاب رہی، انہوں نے مزید کہاکہ صیہونی حکومت پر لبنانی مزاحمت کی طرف سے عائد کردہ شکست صرف تل ابیب کی ناکامی نہیں تھی،یہ ایک شکست تھی جس کا تلخ مزہ امریکہ نے بھی چکھا۔
انقلاب اسلامی کی فتح کے آغاز ہی سے اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنے ایجنڈے پر خطے اور دنیا میں مزاحمتی گروہوں اور آزادی کی تحریکوں کی حمایت کی، اس سے امریکہ اور اسرائیل کو بھاری نقصان ہوا