سچ خبریں: لبنان کی حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے اس بات پر زور دیا کہ آنے والی جنگ میں صیہونی فوجی ہیڈکوارٹر، ایئر بیس، پاور پلانٹس، تیل، پٹرول اور امونیا ریفائنریوں کے علاوہ دیمونا پاور پلانٹ کا پتا بھی نہیں چلے گا کہاں گئے۔
لبنان کے سکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے 33 روزہ جنگ کی فتح کی 17ویں سالگرہ کے موقع پر اپنے خطاب کے آغاز میں پاکستان میں متعدد افراد کی شہادت پر تعزیت کا اظہار کیا نیز شام کے بادیہ علاقہ اور ایران کے شہر شیراز میں ہونے والی دہشت گردانہ کاروائیوں کی مذمت کی۔
یہ بھی پڑھیں: صیہونی حزب اللہ سے بچنے کے لیے کیا کر رہے ہیں؟
سید حسن نصر اللہ نے مزید کہا کہ 2006 میں اس دن جو عظیم منظر پیش آیا وہ لوگوں کی بہادری تھی جس نے انہیں قائم کیا، ان کے مطابق امریکہ نے خطے کے کئی حصوں میں داعش کی سرگرمیوں کو واپس لانے کا فیصلہ کیا ہے۔
لبنان کی حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے اشارہ کیا کہ میں ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اس 33 روزہ جنگ میں شجاعت کا مظاہرہ کیا، ہم عوام، مزاحمتی تحریک، فوجی اور سیکورٹی اداروں کے ساتھ اپنے ملک کی عوام کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
انہوں نے ایران اور شام کی حمایت نیز عرب اور اسلامی دنیا کی تمام برادریوں اور جولائی کی جنگ میں مزاحمت کا ساتھ دینے والے اور اظہار یکجہتی کرنے والے تمام ممالک کا شکریہ ادا کیا۔
سید حسن نصر اللہ نے جولائی کی فتح (33 روزہ جنگ) کو ایک الہی اور تاریخی فتح قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ گزشتہ سالوں میں ملنے والی تمام کامیابیاں جولائی 2006 کی جنگ میں فتح کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی تھیں۔
حزب اللہ کے سکریٹری جنرل کے مطابق اگلے چند دنوں میں ڈرلنگ کشتی جنوب کے علاقائی پانیوں میں بلاک 9 تک پہنچ جائے گی، لبنانی قنا گیس فیلڈ میں دلچسپی رکھتے ہیں، اس کے ساتھ ہی وہ لبنان کے حقوق اور تیل کی دولت کو برقرار رکھنے کی اصل ضمانت لبنانی طاقت کے ڈھانچے کی بحالی اور ان میں سب سے اوپر مزاحمت کو سمجھتے ہیں۔
سید حسن نصر اللہ نے تاکید کی کہ جس چیز نے دشمن کو لبنان کے حقوق اور قدرتی وسائل پر قبضہ نہ کرنے پر مجبور کیا وہ لبنان کی طاقت تھی۔
حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے اس کے بعد صیہونی حکومت کے حالات کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ جو کوئی بھی اسرائیل کے حالات کو دیکھتا ہے وہ سمجھ سکتا ہے کہ جولائی 2006 کی جنگ سے لے کر آج تک یہ حکومت تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے۔
انہوں نے تاکید کی کہ مزاحمتی تحریک نے صیہونی حکومت کے اندرونی محاذ کو جنگ کا حصہ بنا دیا ہے جبکہ 2006 کی جنگ سے پہلے یہ محاذ جنگ سے مکمل طور پر دور تھا۔
سید حسن نصر اللہ نے صیہونی حکومت کے ہتھکنڈوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 2006 سے لے کر آج تک صیہونی دشمن نے اپنے داخلی محاذ کو تیاری کی سرحد تک پہنچانے کے لیے متعدد مشقیں کی ہیں، لیکن دستیاب رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح کی مشقیں بے سود رہیں اور ان سے صیہونی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکے۔
لبنان کی مزاحمتی قیادت نے تاکید کی کہ داخلی محاذ (صیہونی حکومت) کے حوالے سے سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ آباد کار اور غاصب مہاجرین قربانی دینے اور اس کے نتائج کو برداشت کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ آج اسرائیلی فوج گزشتہ عرصے کے مقابلے میں اپنی بدترین حالت میں ہے اور جارحانہ پوزیشن سے پناہ لینے کی پوزیشن میں پہنچ چکی ہے ۔
مزاحمتی رہنما کے بقول آج مزاحمتی محور فرنٹ لائن پر ہے جبکہ اسرائیل دیواروں کے پیچھے چھپا ہوا ہے، انہوں نے صہیونی دشمن کے لیڈروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم پتھر کے زمانے میں لوٹ جاؤ گے۔
انہوں نے تاکید کی کہ دشمن گن سکتا ہے کہ اسرائیل کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنے کے لیے کتنے میزائلوں کی ضرورت ہے،سید حسن نصراللہ کے بقول، مزاحمتی محور کے ساتھ تنازعہ کو جنگ میں تبدیل کرنے سے اسرائیل نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہے گی۔
مزید پڑھیں: نصر اللہ دھمکی دیتے ہیں تو ہم جنگ کے لیے تیار ہو جاتے ہیں:صیہونی تجزیہ کار
حزب اللہ کے سکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے صیہونی حکومت کے وزیر جنگ کی دھمکیوں کے جواب میں کہ جس نے اعلان کیا تھا کہ ہم لبنان کو آنے والی جنگ میں پتھر کے زمانے میں لوٹا دیں گے، تاکید کے ساتھ کہا کہ اس سے پہلے کہ آپ لبنان کو پتھر کے زمانے میں لوٹائیں، اسرائیل پتھر کے زمانے میں پہنچ جائے گا، آپ کے تمام ہجر فوجی ہیڈکوارٹر، ایئر بیس، واٹر پمپ ہاؤس، پاور پلانٹس، تیل، پٹرول اور ڈمونا ریفائنریوں کا پتا بھیں چلے گا کہاں گئیں۔