سچ خبریں: چند روز قبل رشی سنک نے اس ملک میں ہونے والے ملک گیر ایونٹ کی تاریخ سے متعلق قیاس آرائیوں کو ختم کرتے ہوئے اعلان کیا کہ یہ مقابلہ 4 جولائی کو منعقد کیا جائے گا۔
دو ماہ قبل انگلینڈ میں پارلیمان کی گرمیوں کی تعطیلات سے قبل عام انتخابات کے امکانات کے بارے میں قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں لیکن حالیہ سٹی کونسل کے انتخابات میں حکمران قدامت پسند جماعت کی بھاری شکست اور مختلف میں 500 سے زائد نشستوں کے نقصان کے بعد شہروں میں قیاس آرائیوں کا بخار تھوڑی دیر کے لیے تھم گیا۔
دو ہفتے قبل سنک نے اس وقت سیاسی جوا رچایا جب برطانیہ کے قومی شماریاتی مرکز نے اعلان کیا کہ اس ملک میں افراط زر کی شرح گزشتہ 3 سالوں میں اپنی کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ اپنی تقریر میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ برطانوی معیشت دیگر یورپی ممالک سے آگے ہے اور کنزرویٹو پارٹی لوگوں کے حالات زندگی کو بہتر بنانے کے لیے کوششیں جاری رکھے گی۔
اس کے باوجود زیادہ تر پولز کے نتائج بتاتے ہیں کہ حکمران قدامت پسند پارٹی کے نہ صرف یہ الیکشن جیتنے کا کوئی امکان نہیں ہے بلکہ اسے بھاری شکست کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ باوقار یوگو انسٹی ٹیوٹ کے تازہ ترین نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ 47 فیصد برطانوی عوام کیئر اسٹارمر کی قیادت میں لیبر پارٹی کی حمایت کرتے ہیں اور 20 فیصد کنزرویٹو کی حمایت کرتے ہیں۔
اس بنا پر کئی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 61 سالہ سٹارمر انگلینڈ کے اگلے وزیر اعظم ہوں گے، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سٹارمر نے گزشتہ چار سالوں میں لیبر پارٹی کو سیاست کے مرکز کی طرف لے کر بائیں بازو کو پسماندہ کر دیا ہے۔ لیکن وہ محتاط نظر آتا ہے اور اس کے ناقدین اسے بورنگ کے طور پر بیان کرتے ہیں۔