سچ خبریں:امریکی سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ ٹرمپ کے دور کا سرحدی پابندی کا قانون نافذ العمل رہے۔
امریکی سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ ٹرمپ کے دور میں بننے والا متنازعہ سرحدی پابندی کا قانون جسے ایکٹ 42 کہا جاتا ہے، فی الحال نافذ العمل رہے گا، اس رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ نے واشنگٹن کی وفاقی عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے حکم دیا ہے کہ ٹرمپ دور کی امیگریشن پالیسیوں پر عمل درآمد جاری رکھا جائے، یاد رہے کہ واشنگٹن کی ایک وفاقی عدالت نے گزشتہ ماہ فیصلہ دیا تھا کہ یہ امیگریشن پالیسی ختم ہونی چاہیے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کی طرف سے یہ حکم نامہ ایسے وقت جاری کیا گیا ہے جبکہ 19 ریپبلکن امریکی وکلاء نے امیگریشن پالیسی کو جاری رکھنے کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک ہنگامی درخواست دائر کی جس کی مدت رواں ہفتے ختم ہونے والی تھی، قدامت پسند جج نیل گورسچ نے یہ فیصلہ جاری کرنے کے بعد کہا کہ موجودہ امریکی سرحدی بحران کوویڈ 19 کے پھیلاؤ کا بحران نہیں ہے،عدالتوں کو صرف ایک خاص ہنگامی صورت حال میں نفاذ کے منصوبوں کو جاری رکھنے پر غور نہیں کرنا چاہیے جب کہ ریاستی حکام دیگر ہنگامی صورتحال سے نمٹنے سے انکار کرتے ہیں،اس عدالت نے اس معاملے میں زبانی درخواستوں کی سماعت کے لیے فروری کے مہینے کا بھی اعلان کیا اور حتمی فیصلہ جون کے مہینے تک ملتوی کر دیا۔
یاد رہے کہ سرحدی پابندی کا قانون 42 پہلی بار ٹرمپ انتظامیہ نے 2020 کے موسم بہار میں اور کورونا کی وبا کے آغاز کے وقت نافذ کیا تھا، اس قانون کے مطابق تارکین وطن کو امریکہ میں داخلے کی اجازت نہیں ہے اور سرحدی حکام طبی حفاظتی اقدامات کی وجہ سے ان کی پناہ کی درخواستوں پر نظرثانی نہیں کرتے ہیں۔
اس قانون کے نفاذ کے بعد سے تارکین وطن کے حقوق کے کارکنوں کی جانب سے سخت تنقید کی جا رہی ہے، ان کا خیال ہے کہ یہ قانون ظالمانہ اور غیر انسانی ہے اور چونکہ کورونا دور کی پابندیاں ختم ہو چکی ہیں، اس لیے اس قانون کو بھی منسوخ کیا جانا چاہیے۔
دریں اثنا، سرحدی حکام اور کچھ ریپبلکنز کا خیال ہے کہ اس پالیسی کو ختم کرنے سے امریکی سرحدوں کی طرف تارکین وطن کی بڑی تعداد میں آمد ہو گی۔