سچ خبریں: روس میں فلسطینی سفیر عبدالحافظ نوفل نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ غزہ جنگ کے آغاز کو نو ماہ گزر جانے کے باوجود اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ واشنگٹن حکام غزہ میں خونریزی ختم نہیں کرنا چاہتا ۔
سفارت کار نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ہم اب غزہ کی پٹی میں جنگ کے نویں مہینے میں ہیں اور کسی دوسرے ملک کا اسرائیل پر اتنا مکمل اور مطلق اثر و رسوخ نہیں جتنا امریکہ کا ہے۔ ذرا سوچئے کہ اگر اس طرح کی جنگ کسی اور ملک میں شروع ہو جاتی تو پوری دنیا الجھن میں پڑ جاتی اور اسے ختم کرنے کی کوشش کرتی لیکن صیہونی حکومت کے جرائم نہ صرف رفح بلکہ پورے خطے میں جاری ہیں۔
ان کے بقول، دو ملکوں کی تشکیل اور انسانی امداد بھیجنے میں اضافے کے بارے میں سرکاری بیانات کے باوجود، امریکا واضح طور پر اسرائیل پر موجودہ خونریز کارروائیوں کو ختم کرنے کے لیے دباؤ نہیں ڈالنا چاہتا۔ اگر اسرائیل کی جانب سے امریکہ کی اندھی حمایت نہ ہوتی تو رہائشی علاقوں کی تباہی اور عام شہریوں کی اتنی خوفناک ہلاکتیں نہ ہوتیں۔
غزہ کے مسائل کے حوالے سے مغربی ممالک کا نقطہ نظر تبدیل کرنا
عبدالحافظ نوفل نے یہ بھی بتایا کہ آج عالمی سطح پر فلسطینی اسرائیل تنازعہ کے حوالے سے نقطہ نظر کو تبدیل کرنے کا رجحان ہے۔ ماضی میں، یہود دشمنی کے ممکنہ الزامات کی وجہ سے مغرب اسرائیل پر کھل کر تنقید کرنے سے ڈرتا تھا، لیکن اب بہت سے سیاست دان اس بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔
ماسکو میں فلسطینی سفیر نے وضاحت کی کہ ماضی میں، بہت سے لوگ اسرائیلی حکومت پر تنقید کرنے سے ڈرتے تھے کیونکہ ان پر یہود دشمنی کا الزام لگایا جا سکتا ہے، جو اکثر ہولوکاسٹ کے سانحہ کارڈ کے ساتھ کامیابی سے کھیلا جاتا ہے۔ لیکن اب دنیا امریکی اور یورپی یونیورسٹیوں میں فلسطینی عوام کے دفاع میں ریلیاں دیکھ رہی ہے۔ مغربی میڈیا اس قتل عام، غزہ کی پٹی میں انسانی امداد بھیجنے کے مسائل کے بارے میں بات کرتا ہے، بشمول مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی درخواست۔ دنیا سمجھ چکی ہے کہ سب کچھ اتنا آسان نہیں ہے۔