سچ خبریں:اگرچہ نیتن یاہو کے اقتدار سے ہٹنے صیہونی حکومت اور امریکہ کے درمیان اختلافات سے قدرے کم ہوئے تھے ،تاہم اب مختلف میدانوں میں دونوں فریقوں کے درمیان تناؤ دشمنی کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔
جب جو بائیڈن نے امریکہ میں اقتدار کی باگ ڈور سنبھالی تو اس کا نیتن یاہو سے شدید جھگڑا تھا،تاہم کام بینیٹ کے اقتدار میں آنے سےدونوں فریقوں کے درمیان اختلافات کچھ کم ہوئے کیونکہ صہیونیوں نے بائیڈن کے مطالبات پر عمل کرنے کی کوشش کی۔
تاہم اب بینیٹ کے امریکہ کے دورے کے بعد لگتا ہے کہ دونوں فریقوں کے درمیان ایک طرح کی دراڑ آچکی ہے ، ہر ایک دوسرے فریق کے ساتھ نئے نئے ہتھکنڈے آزما کر اپنے مطالبات ماننے پر مجبور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
واضح رہے کہ صہیونی ٹرمپ کے سنچریڈ یل کے منصوبے پر عمل درآمد کے لیے بائیڈن انتظامیہ سے متوازی مطالبات کر رہے ہیں جو امریکیوں کی طرف سے پورے نہیں کیے جا رہے ہیں جس کے باعث دونوں فریقوں کے مابین تنازعہ بن گیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ بائیڈن کے دور میں صہیونیوں اور امریکہ کے درمیان سب سے اہم تنازعہ ایرانی جوہری معاملہ ہے، چونکہ صہیونی ایران پر آزادانہ حملہ نہیں کر سکے ہیں اس لیے وہ نتائج سے خوفزدہ ہیں اور وہ ایران کے ایٹمی تنصیبات پر فوجی حملے کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ دباؤ چاہتے ہیں۔
صیہونی چاہتے ہیں کہ یہ حملہ امریکہ یا ان کی سربراہی میں قائم اتحاد کرے ،تاہم امریکہ معاشی حالات اور مغربی ایشیائی خطے کو چھوڑنے کے منصوبوں کی وجہ سے مذاکرات اور مسلسل معاشی دباؤ کے ذریعے کیس کو آگے بڑھانا چاہتا ہے۔
اس وجہ سے دونوں فریق اپنے مقاصد کو آگے بڑھانے کے طریقے ڈھونڈ رہے ہیں اور ان کا مشترکہ کام صرف معاشی دباؤ ہے،یادرہےکہ تنازعہ کے ان نکات میں سے ہر ایک دونوں طرف سے دباؤ اور لاک اپ کا اعلان لگتا ہے جبکہ یہ وقت کے ساتھ ساتھ دونوں فریقوں کے تعلقات کو مزید خراب کر سکتا ہے۔