سچ خبریں:سعودی اپوزیشن کو سعودی نقاد احمد عبد اللہ الحربی کے بارے میں تشویش ہے جنہیں چار ماہ قبل کینیڈا میں اغوا کیا گیا تھا۔
سعودی وکی لیکس کی رپورٹ کے مطابق سعودی اپوزیشن ذرائع نے اس ملک کی حکومت پر تنقید کرنے والےاحمد عبد اللہ الحربی کی نامعلوم صورتحال کی اطلاع دی ہے،رپورٹ کے مطابق ، الحربی کی کہانی اب تک بہت ہی عجیب اور مختلف سوالوں سے بھری ہوئی ہے، وہ 2019 میں کینیڈا فرار ہوگئے تھے جہاں انہیں پناہ دی گئی تھی، انہوں نے آل سعود کو تنقید کا نشانہ بنایا اور ٹویٹر اور یوٹیوب سمیت سوشل میڈیا پر محمد بن سلمان کے حامیوں سے بحث کی یہاں تک کہ جنوری میں انھیں آواتا میں واقع سعودی سفارت خانے نے انھیں بلایا،الحربی نے سوشل میڈیا پر یہ دعوت برملا کی اور اس خوف سے سعودی سفارت خانے میں داخل ہوئے کہ انھیں بھی جمال خاشقجی کی طرح قتل کر دیا جائے گا لیکن خاشقجی کے برعکس وہ وہاں سے زندہ واپس آگئے۔
اس کے بعد 24 سالہ سعودی نقاد نے اپنے ٹویٹر پیج پر لکھا کہ سفارتخانے کے عملے نے ان کے سامنے سعودی ویزا رکھا اور مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنے ملک واپس جائیں لیکن الحربی نے اس کوقبول نہیں کیا،انھوں نے لکھا کہ جب وہ سفارت خانے میں داخل ہوئے تو انھیں لگا کہ جیسے جمال خاشقجی ہوں۔
واضح رہے کہ واشنگٹن پوسٹ نے یہ بھی اطلاع دی کہ سفارتخانے کے عملے نے ان پر دباؤ ڈالا تھا کہ وہ ان دوستوں ، رشتہ داروں اور ساتھیوں کے بارے میں انھیں معلومات فراہم کریں جس کو انھوں نے قبول نہیں کیا، تاہم الحربی سعودی سفارتخانہ سے واپسی کے بعد سوشل میڈیا پرسرگرم نہیں رہےسوائے اس کے اپنے ٹویٹر پیج پر کچھ ٹویٹس کیے یہاں تک کہ انھوں نے 18 فروری کو نیا ٹویٹر اکاؤنٹ کھولا جس پرمحمد بن سلمان کی تصویر شائع کی اورلکھا کہ وہ 7 فروری کو سعودی عرب واپس آئے ہیں اور انہیں اس پر بہت خوشی ہے۔
ان کے نئے ٹویٹر پیج پر سعودی عرب اور محمد بن سلمان پر تنقید کی کوئی خبر نہیں تھی جس سے سعودی حکومت کے تمام دوستوں اور مخالفین پر یہ واضح ہو گیا کہ انھیں اغوا کرکے سعودی عرب واپس لایا گیا ہے، سعودی حکومت کے مخالفین نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا ہے کہ انہیں اس بات پر سخت تشویش ہے کہ احمد الحربی کو سعودی عرب میں تشدد کا نشانہ بنایا جائے گا۔