غزہ (سچ خبریں) صہیونیوں کی جانب سے فلسطینی مزاحمت کے مطالبات پر عدم دلچسپی کے بعد اسرائیل اور فلسطین کے مابین حالات مزید خراب ہوسکتے ہیں اور صورتحال تنازعہ کی طرف بڑھ سکتی ہے۔
تفصیلات کے مطابق صہیونیوں کی جانب سے فلسطینی مزاحمت کے مطالبات پر عملدرآمد کرنے سے گریز کرنے اور ثالثی کرنے والوں کی غلط فہمی کی وجہ سے ایک ممکنہ تصادم اور ایک نئی فوجی جنگ کا آغاز ہوسکتا ہے۔
غیر ملکی نیوز ایجنسی کے مطابق، فلسطین الیوم نے مزاحمتی گروپوں کی جانب سے ثالثی کرنے والوں اور اسرائیل کو دی گئی مہلت کے بارے میں ایک مضمون میں لکھا ہے کہ غزہ میں فلسطینی گروپوں نے گذشتہ منگل کو ایک تازہ ترین پیشرفت اور حماس کے سربراہ یحییٰ السنوار کی اقوام متحدہ کے سفیر سے ملاقات سے ثالثی کرنے والوں کو غزہ کی تعمیر نو کو تیز کرنے اور محاصرے کو ختم کرنے کے لئے ایک اور موقع فراہم کیا ہے۔
فلسطین الیوم نے اپنی رپورٹ میں مزید لکھا کہ فلسطینی گروہ اس پر خاموش نہیں رہیں گے اور نمٹنے میں اسرائیل کی جانب سے تاخیر کی پالیسی کے بارے میں متنبہ کیا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ خاموش نہیں رہیں گے اور صہیونی حکومت کو ان کے شرائط ماننے پر مبجور کرنے کے لیئے ان کے پاس دوسرے آپشن بھی موجود ہیں۔
اخبار نے مزید لکھا کہ صیہونی حکومت کی فوج نے آپریشن "القدس” کے بعد غزہ کا محاصرہ تیز کردیا ہے، گزر گاہیں بند کردی ہیں اور غزہ میں ضرورت کی چیزوں کو آنے سے روک دیا ہے اور غزہ کے باشندوں کے لئے سمندر بند کردیا، جس کی وجہ سے صورتحال مزید خراب ہوچکی ہے۔
دریں اثنا فلسطینی تجزیہ کار مصطفی الصوف نے فلسطین الیوم کو بتایا کہ غزہ میں فلسطینی گروہوں کی جانب سے اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کے لیئے ثالثی کرنے والوں کو دی گئی مہلت کا فلسطینیو کے لیئے کوئی فائدہ نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مزاحمت کی جانب سے دی گئی مہلت نے ثالثی کرنے والوں کو غلط فہمی میں مبتلا کردیا ہے، وہ سمجھ رہے ہیں فلسطینیوں کے پاس اسرائیلی شرائط کو ماننے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے اور وہ آخرکار تمام شرائط کو مان لیں گے، جبکہ یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے۔
الصواف نے کہا کہ مزاحمتی گروپوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ثالثین اسرائیلی غاصبوں پر دباؤ ڈالنے کے لئے بہت کمزور ہیں، لہٰذا ایسی صورت میں مزاحمتی گروہ اسرائیل پر شدید دباؤ ڈال کر اپنے تمام مطالبات کو منوانے پر مجبور کردیں گے۔