سچ خبریں:سعودی وزیر خارجہ نے کہا کہ فلسطینی ریاست کے قیام تک ریاض اور تل ابیب کے درمیان تعلقات معمول پر نہیں آئیں گے
الجزیرہ نیوز چینل کی رپورٹ کے مطابق سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے کہا کہ شمالی غزہ کے واقعات کو نسل کشی کے طور پر ہی بیان کیا جا سکتا ہے۔
سعودی وزیر خارجہ نے کہا کہ فلسطینی ریاست کا قیام ضروری ہے اور فلسطینیوں کو اپنے مستقبل کا حق حاصل ہونا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: طوفان الاقصی کا صیہونی سعودی دوستی پر کیا اثر پڑا؟
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے غزہ پر حملے انسانی المیے کا باعث بنے ہیں، دو ریاستی حل کو عملی جامہ پہنایا جانا چاہیے اور فلسطین کو جلد از جلد اقوام متحدہ کا رکن بنانا چاہیے۔
بن فرحان نے مزید کہا کہ جب تک فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں نہیں آتا، اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، فلسطینیوں کے حقوق کو حل کیے بغیر خطے میں امن اور استحکام ممکن نہیں۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی ریاست کا قیام بین الاقوامی قوانین کے اصولوں سے جڑا ہے، نہ کہ اسرائیل کی منظوری سے۔
لبنان کے حوالے سے بھی سعودی عرب نے روابط ختم نہیں کیے، مگر مسائل کا حل لبنانیوں کے ہاتھ میں ہےنہ کہ سعودی یا غیر ملکی طاقتوں کے۔
بن فرحان نے بتایا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ غزہ میں فائر بندی مذاکرات اسرائیل کی نئی شرائط کی وجہ سے بار بار ناکام ہوئے ہیں، جب تک غزہ کے تنازع کو حل نہیں کیا جاتا، خطہ کشیدگی کی لپیٹ میں رہے گا۔
سعودی وزیر خارجہ نے کہا کہ ایران نے سعودی عرب کو بتایا ہے کہ خطے میں بڑھتا ہوا تناؤ اس کے مفاد میں نہیں۔
انہوں نے ایرانی ہم منصبوں کو خطے میں مزید کشیدگی سے بچنے کی اہمیت بھی بتائی ہے۔
بن فرحان نے مزید کہا کہ سعودی عرب اور ایران کے تعلقات صحیح سمت میں ہیں، مگر خطے کی پیچیدہ صورتحال کے باعث چیلنجز موجود ہیں، سعودی عرب نے ایران کے ساتھ کوئی فوجی مشق نہیں کی۔
انہوں نے زور دیا کہ خطے میں کشیدگی کم کرنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ تمام فریق اس بات کا فیصلہ کریں کہ کشیدگی سب کے لیے خطرناک ہے۔ اسرائیل کو کشیدگی میں کمی لانی چاہیے اور عالمی برادری کو اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
مزید پڑھیں: کیا ریاض اور تل ابیب کے درمیان تعلقات معمول پر آنے والے ہیں؟
بن فرحان نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ دفاعی تعاون کا معاہدہ پیچیدہ معاملہ ہے اور سعودی عرب کی جانب سے امریکہ کے ساتھ کیے گئے دوطرفہ معاہدے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے سے متعلق نہیں ہیں۔