جنیوا (سچ خبریں) اقوام متحدہ میں میانمار کے سفیر نے اپنی حکومت کے خلاف اہم بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ فوج نے ملک کے شمال مغربی شہر کانی میں جولائی میں مبینہ طورپر قتل عام کیا ہے اور وہاں سے کم سے کم 40 افراد کی لاشیں ملی تھیں جبکہ مزید کا امکان پایا جاتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ میں میانمار کے سفیر کیاو موئے ٹن نے، جنہوں نے فوجی جنتا کے حکم کے باوجود اپنا عہدہ چھوڑنے سے انکار کر دیا ہے، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیریس کو ایک خط میں لکھا کہ میانمار کی فوجی جنتا نے جولائی میں سکینگ علاقے کے شہر کانی شہر میں یہ قتل عام کیا تھا۔
دوسری طرف خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو آزاد ذرائع سے اس کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے، کیونکہ سیگنگ ایک دور افتادہ علاقہ ہے اور وہاں موبائل نیٹ ورک کام نہیں کر رہے ہیں۔
سفیر کیاو موئے ٹن نے اپنے خط میں مزید لکھا ہے کہ فوجیوں نے 9 اور 10 جولائی کے درمیان شہر کے قریب واقع ایک گاؤں میں 16 مردوں کو اذیتیں دینے کے بعد ہلاک کیا، جس کے بعد علاقے میں رہنے والے تقریباً 10 ہزار افراد کو جان بچانے کے لیے وہاں سے بھاگنا پڑا۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ 26 جولائی کو مقامی جنگجوؤں اور سیکورٹی فورسز کے درمیان تصادم کے بعد وہاں سے مزید 13 لاشیں ملیں۔
کیاو موئے ٹن نے کہا ہے کہ ایک 14 سالہ بچے سمیت 11 مزید افراد کو 28 جولائی کو ایک اور گاؤں میں قتل کرنے کے بعد ان کی لاشوں کو جلا دیا گیا۔
سفیر کیاو موئے ٹن نے اپنے خط میں عالمی رہنماوں سے حکمران فوجی جنتا کو ہتھیاروں کی فراہمی پرپابندی عائد کرنے اور فوری انسانی مداخلت کرنے کی اپیل کی ہے۔
کیاو موئے ٹن نے اے ایف پی سے کہا کہ ہم فوج کو میانمار میں اس طرح کی ظلم و زیادتی کا سلسلہ جاری رکھنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔
اقوام متحدہ اور بالخصوص اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو چاہیے کہ وہ اس پر فوری کارروائی کرے، فوج کی طرف سے میانمار میں یکم فروری کو عوامی حکومت کا تختہ پلٹ دینے کے بعد سے ہی ہنگامہ جاری ہے۔