?️
سچ خبریں:افغانستان اور پاکستان کے درمیان حالیہ سرحدی جھڑپوں نے دیورند لائن، طالبان، تحریک طالبان پاکستان اور خطے کی سلامتی سے متعلق پھر سے سوالات اٹھا دیے ہیں۔
افغانستان اور پاکستان کے درمیان حالیہ شدید سرحدی جھڑپیں، جو چند ماہ قبل ہونے والی چار روزہ مئی کی جنگ کے بعد دوبارہ بھڑکی ہیں، اس سوال کو جنم دیتی ہیں کہ اس تنازعہ کی جڑیں کہاں ہیں اور اس کا انجام کیا ہوگا؟
یہ بھی پڑھیں:پاکستان اور افغانستان کے درمیان کیا چل رہا ہے؟
ہفتہ کی رات سے شروع ہونے والی جھڑپوں میں 2640 کلومیٹر طویل سرحد پر طالبان فورسز اور پاکستانی فوج کے درمیان متعدد مقامات پر فائرنگ اور گولہ باری کا تبادلہ ہوا۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 23 پاکستانی فوجی جاں بحق ہوئے، جبکہ طالبان کے بقول 58 پاکستانی فوجی مارے گئے، اسلامآباد نے دعویٰ کیا کہ 200 طالبان جنگجو اور ان کے حامی مارے گئے ہیں۔
یہ جھڑپیں ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہیں جب دونوں ممالک کے درمیان بے اعتمادی کی خلیج بڑھ چکی ہے، پاکستان رواں سال مئی میں افغان صوبوں خوست اور پکتیکا پر فضائی حملے کر چکا ہے، جو کہ اس بار کی لڑائی کا پیش خیمہ سمجھے جا رہے ہیں۔
تاریخی پس منظر؛ دیورند لائن — ایک استعماری زخم
1893ء میں برطانوی اہلکار سر مورٹیمر دیورند اور افغان امیر عبدالرحمان خان کے درمیان ایک معاہدے کے ذریعے دیورند لائین کھینچی گئی جس نے پشتون قبائل کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔
افغانستان نے آج تک اس سرحد کو قانونی حیثیت نہیں دی، اسے استعماری جبر کا نتیجہ قرار دیا ہے، جبکہ پاکستان اسے بین الاقوامی معاہدہ سمجھتا ہے، یہی بنیاد دونوں ممالک کے درمیان موجودہ کشیدگی کا سرچشمہ ہے۔
حتیٰ کہ طالبان کے پہلے دورِ حکومت (1996–2001) میں بھی کابل نے اس سرحد کو تسلیم کرنے سے انکار کیا، دوسری جانب اسلامآباد مسلسل مطالبہ کرتا رہا کہ کابل اس معاہدے کو باضابطہ تسلیم کرے۔
2001 کے بعد کی صورتحال — طالبان، دہشت گردی اور باہمی الزامات
امریکہ کی افغانستان پر چڑھائی کے بعد، دونوں ممالک کی سرحدیں عسکریت پسند گروہوں کی پناہ گاہوں میں بدل گئیں۔
تحریک طالبان پاکستان (TTP) جو 2007 میں وجود میں آئی، پاکستان کے لیے سب سے بڑا داخلی خطرہ بن چکی ہے۔
صرف 2024 میں، 685 پاکستانی سکیورٹی اہلکار 444 حملوں میں مارے گئے۔
اسلامآباد کا کہنا ہے کہ TTP کو افغان سرزمین سے مدد ملتی ہے، جبکہ کابل پاکستان پر الزام لگاتا ہے کہ وہ افغانستان میں شورش کو ہوا دیتا ہے۔
سفارتی تضاد — دو ممالک، دوہرا رویہ
اسلامآباد کے لیے افغانستان ہمیشہ ہند مخالف بفر زون کی حیثیت رکھتا رہا ہے۔ پاکستان نے طالبان کے ساتھ تعلقات برقرار رکھتے ہوئے ہندوستان کے اثر کو کم کرنے کی کوشش کی۔
تاہم اب پاکستان کو اپنے ہی ملک میں سرگرم تحریک طالبان پاکستان سے خطرہ لاحق ہے، جو افغان سرزمین سے کارروائیاں کرتی ہے۔
طالبان حکومت کے لیے بھی معاملہ پیچیدہ ہے — وہ تحریک طالبان پاکستان سے نسلی و نظریاتی رشتے رکھتے ہیں، اس لیے وہ ان کے خلاف فیصلہ کن کارروائی سے گریز کرتے ہیں۔
تشویشناک اعداد و شمار — دونوں جانب تباہی
مرکز تحقیقات و مطالعاتِ سلامتی (CRSS) کے مطابق 2025 کے پہلے 9 مہینوں میں 2414 افراد پاکستان میں دہشت گردی کے حملوں میں مارے گئے۔
افغانستان میں بھی فضائی حملوں اور سرحدی جھڑپوں نے ہزاروں عام شہریوں کو بے گھر کر دیا ہے۔
انسانی المیہ — پناہ گزینوں کی بے دخلی
پاکستان نے حالیہ برسوں میں 3 ملین افغان پناہ گزینوں کی جبری واپسی کی مہم شروع کی ہے۔
اسلامآباد اسے سکیورٹی اقدام قرار دیتا ہے، مگر اقوام متحدہ کے مطابق یہ انسانی بحران کو بڑھا رہا ہے۔
دونوں جانب کے سرحدی دیہات توپ خانے اور فضائی حملوں کی زد میں ہیں، جس سے ہزاروں خاندان بے گھر ہو چکے ہیں۔
علاقائی ردعمل — ایران، چین اور خلیجی ممالک کی تشویش
ایران، قطر اور سعودی عرب نے فریقین سے خویشتنداری اور مذاکرات کی اپیل کی ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا کہ پاکستان و افغانستان کا استحکام پورے خطے کے استحکام کے لیے ضروری ہے۔
چین، جو چین-پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کا سب سے بڑا سرمایہ کار ہے، ان جھڑپوں سے تشویش میں مبتلا ہے کیونکہ یہ بیجنگ کے اسٹریٹجک منصوبوں کو متاثر کر سکتی ہیں۔
روسی حکام نے بھی خبردار کیا ہے کہ افغانستان کی بدامنی وسط ایشیا تک پھیل سکتی ہے۔
آگے کا راستہ — جنگ یا مذاکرات؟
ماہرین کے مطابق دونوں ممالک مکمل جنگ برداشت نہیں کر سکتے۔
سابق پاکستانی سفیر آصف درّانی کا کہنا ہے کہ نہ پاکستان کے پاس طویل جنگ کے وسائل ہیں، نہ افغانستان کے پاس دفاعی طاقت، دونوں کو مذاکرات کی طرف آنا ہوگا۔
دوسری جانب، تجزیہ کار ابراہیم بحیص کا کہنا ہے کہ دونوں حکومتوں کو اندرونی بحرانوں سے نمٹنے کے لیے فوری کشیدگی میں کمی لانا ہوگی۔
چین، ایران، اور سعودی عرب جیسے ممالک ثالثی کا کردار ادا کر سکتے ہیں، مگر اس بحران کا دیرپا حل تبھی ممکن ہے جب خطِ دیورند، سرحدی انتظام، اور شورش زدہ گروہوں کے مسئلے کو مشترکہ مکینزم کے تحت حل کیا جائے۔
مزید پڑھیں:پاکستان اور افغانستان کے تعلقات محاذ آرائی کی طرف نہیں جانے چاہئیں، احسن اقبال
اقتصادی زونز کی تشکیل، قانونی تجارت کی بحالی، اور مشترکہ سیکیورٹی تعاون ہی اس نازک صورتحال سے نکلنے کا واحد راستہ ہے۔
مشہور خبریں۔
فلسطینی مزاحمتی تحریک نے قاسم میزائل لانچ کر دیا
?️ 16 مئی 2021سچ خبریں:جہاد اسلامی فلسطین تحریک کی عسکری ونگ سرایاالقدس کے ترجمان نے
مئی
پنجاب حکومت نےالیکشن کمیشن سے ضمنی انتخاب کو ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا ہے
?️ 31 اکتوبر 2021اسلام آباد(سچ خبریں) پنجاب حکومت نے صوبے میں امن و امان کی
اکتوبر
مثبت سوچ نے کینسر کے خلاف جنگ جیتنے میں مدد کی،اداکارہ فرح نادر
?️ 1 فروری 2025 کراچی(سچ خبریں) 90 کی دہائی میں شوبز انڈسٹری میں قدم رکھنے
فروری
پاکستان کے مفاد میں جو نہیں ہوگا وہ نہیں کریں گے: معید یوسف
?️ 27 جون 2021اسلام آباد (سچ خبریں) وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے قومی سلامتی
جون
ہم آیت اللہ خامنہ ای کے مشکور ہیں:سید حسن نصراللہ
?️ 6 مارچ 2021سچ خبریں:لبنانی حزب اللہ موومنٹ کے سکریٹری جنرل نے سید حسن نصراللہ
مارچ
مقاومتی ڈرون کے مقابل میں تل ابیب پہلے سے کہیں زیادہ غیر محفوظ
?️ 30 اپریل 2022سچ خبریں: سائٹ العربی الجدید نے آج ایک رپورٹ میں نئے میزائلوں
اپریل
سعودی عرب کی خودساختہ یمنی حکومت کو 500 ملین ڈالر کی مالی امداد
?️ 28 دسمبر 2024سچ خبریں:سعودی عرب نے حالیہ دنوں میں یمن کی خودساختہ حکومت کو
دسمبر
ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس واپسی کی لڑائی اور بائیڈن کا وائٹ ہاؤس کو الوداع
?️ 5 مارچ 2024سچ خبریں: 2024 کے امریکی صدارتی انتخابات نومبر میں ہوں گے، اس
مارچ