سچ خبریں:سید حسن نصر اللہ کے الفاظ میں قابضین کے لیے ایک واضح پیغام تھا جو مقبوضہ سرزمین سے صیہونیوں کی الٹی ہجرت اور نیتن یاہو کی کابینہ کے خلاف دباؤ بڑھا سکتا ہے۔
سید حسن نصر اللہ کے حالیہ الفاظ میں مقبوضہ فلسطین کے تمام باشندوں اور سب سے اہم اسرائیلی فوج کے لیے ایک واضح پیغام تھا۔
واضح رہے کہ غزہ کی پٹی پر صیہونی فوج کی حالیہ دراندازی جس کے صیہونیوں کے لیے منفی نتائج سامنے آئے اورجنوبی لبنان میں گزشتہ اتوار کو منعقد ہونے والی حزب اللہ کی بے مثال فوجی مشقوں کے بعد قابض حکومت کے خلاف کئی محاذوں پر جنگ شروع ہونے کے امکان کے بارے میں صیہونیوں کی تشویش میں اضافہ ہوا ہے اس ہیے کہ زیادہ تر صیہونی اس بات پر متفق ہیں کہ اگر یہ جنگ ہوتی ہے تو اسرائیل کا وجود ختم ہو سکتا ہے، اس مقصد کے لیے صیہونی حکومت کے عسکری اور سیاسی ادارےنئی حکمت عملی اور متعدد ہتھکنڈوں کے ذریعے ایسی جنگ شروع کرنے سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر اسرائیل کے تمام دشمن اس حکومت کے خلاف ہمہ گیر جنگ میں شامل ہو جاتے ہیں تو اسے زمین پر باقی رہنے کا موقع نہیں ملے گا۔
یاد رہے کہ حزب اللہ کے سکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے جمعرات کی شب مزاحمت کی عید اور لبنان کی آزادی کی سالگرہ کے موقع پر اپنے خطاب میں صیہونی حکومت کی جانب سے خطہ میں جنگ کے شعلوں پر بھڑکانے کے نئی سازش کے خلاف خبردار کیا اور کہا کہ اگر صیہونی حکومت یہ سمجھتی ہے کہ یہ بڑی جنگ صرف فلسطینیوں یا لبنانیوں کے ساتھ ہے تو بہت بڑی غلطی پر ہے اس لیے کہ اگر جنگ ہو گی تو اس میں تمام سرحدیں شامل ہوں گی ،لاکھوں مجاہد شریک ہوں گے اور تمام سرحدیں کھول دی جائیں گی۔
سید حسن نصر اللہ نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ صیہونی حکومت کو اس جنگ سے ڈرنا چاہیے ، انہوں نے اسرائیلی حکومت کے رہنماؤں کو خبردار کیا کہ میں نے یوم قدس کے مارچ کے دوران آپ سے کئی بار کہا تھا کہ ہوشیار رہو اور غلط اندازہ نہ لگاؤ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم لبنان، فلسطین، ایران یا شام میں ایسی غلطی کر بیٹھو جو پورے خطے کو جنگ میں ڈھکیل دے اور ایک بڑی جنگ کا باعث بنے جو اگر آپ کی تباہی کا باعث نہ بھی بنے تب بھی آپ کو اٹھنے کے قابل نہیں چھوڑے گی۔
حزب اللہ کے سکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے اپنے حالیہ خطاب میں صیہونیوں کو انتباہ دیتے ہوئے کہا کہ غاصبوں کی جانب سے کوئی بھی حماقت علاقائی جنگ کا باعث بن سکتی ہے جس کے بعد متعدد صیہونی حلقوں تشویش دیکھنے کو ملی یہاں تک کہ بنیامین نیتن یاہو نے خطے میں جنگ اور فوجی مسائل پر بات کی۔
درحقیقت حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے اس تناظر میں جو اہم اور بنیادی مسئلہ بیان کیا وہ یہ تھا کہ مزاحمت دفاعی موڈ سے جارحانہ موڈ میں داخل ہو چکی ہے اور نئے مرحلے میں مزاحمتی فریق کی طرف سے قابضین کے خلاف ردعمل شروع ہو جائے گا، ان کی یہ باتین نیتن یاہو کی کابینہ کے مزید بکھرنے کا باعث بنیں گی نیز سید حسن نصر اللہ کے ان الفاظ کو اسرائیل کے اندر سے ٹوٹنے کے عین مطابق سمجھا جا سکتا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ 2006 کے بعد صیہونی سید حسن نصر اللہ کی باتوں پر اسرائیل کے اعلیٰ حکام سے کہیں زیادہ یقین کرتے ہیں، یہ ضروری ہے کہ حزب اللہ کے سکریٹری جنرل کے الفاظ نے مقبوضہ علاقوں کے باشندوں کو واضح پیغام دیا کہ مزاحمت مقبوضہ علاقوں کے امن کو درہم برہم کر سکتی ہے اور صہیونیوں کو اب مزید یہ تصور نہیں کرنا چاہیے کہ وہ اپنی سرزمین موعود میں رہ رہے ہیں جہاں امن و امان ہے۔
اس لیے سید حسن نصر اللہ کے الفاظ میں قابضین کے لیے ایک واضح پیغام تھا اور یہ مقبوضہ سرزمین سے صیہونیوں کی الٹی نقل مکانی نیز نیتن یاہو کی کابینہ کے خلاف دباؤ بڑھا سکتا ہے، اس سے صیہونی آبادکاروں کی اس حکومت کی پولیس سے مطالبہ بھی بڑھ سکتا ہے کہ وہ ان کی حفاظت کو یقینی بنائیں جبکہ اسرائیلی پولیس کی اس سلسلہ میں ناکامی پوری طرح سے ثابت ہو چکی ہے لیکن اہم نکتہ یہ ہے کہ حزب اللہ کے سکریٹری جنرل کے ان الفاظ میں صہیونی فوج کے لیے ایک واضح پیغام تھا جس نے ان کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔