ترکی میں امیگریشن میں مخالف جذبات میں کمی کی وجوہات

ترکی

?️

سچ خبریں: گزشتہ کچھ مہوں کے دوران ترکیہ میں شامی پناہ گزینوں کے خلاف شدید اور نفرت انگیز مواد کی تشہیر اور مہاجر مخالف جذبات میں واضح کمی دیکھی گئی ہے۔ تاہم، شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ اس کی بنیادی وجہ سماجی تبدیلیاں یا عوامی ثقافتی رویوں میں تبدیلی نہیں، بلکہ سیاسی وجوہات ہیں۔
ترکی کی عدلیہ نے ایک مشہور سیاستدان کی گرفتاری کے ذریعے مہاجر مخالف رویوں کے خلاف سخت اور فیصلہ کن کارروائی کی، جس کے نتیجے میں سوشل میڈیا پر سینکڑوں معروف اور گمنام اکاؤنٹس یکدم خاموش ہو گئے۔ اب میڈیا یا سوشل نیٹ ورکس پر کوئی شامی پناہ گزینوں، افغان مہاجرین یا دیگر غیر ملکیوں کو دھمکیاں دینے کی جرات نہیں کرتا۔
اس شخص کی گرفتاری نے آگ پر پانی ڈال دیا
پروفیسر امید اوزداغ، جو بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر اور قومی سلامتی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ماہر ہیں، ترکی کا ایک معروف چہرہ تھے جسے لوگ ہر رات ٹی وی پر گرم گفتگو میں دیکھتے تھے۔ وہ PKK کے خلاف جنگ کے ماہر تھے اور اپنے انٹرویوز میں وسیع معلومات فراہم کرتے تھے۔
اوزداغ کے قوم پرست جذبات نے انہیں اس مقام پر پہنچایا کہ دولت باغچلی، یعنی نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی (MHP) کے رہنما اور انتہائی قوم پرست تحریکوں کے روحانی پیشوا، نے انہیں اپنی پارٹی میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ لیکن اوزداغ بھی مرال آکشنر، سینان اوغان اور دیگر کی طرح جلد ہی باغچلی سے اختلافات کی وجہ سے الگ ہو گئے اور بعد میں انہوں نے "ظفر” نامی ایک نئی پارٹی قائم کی۔
جبکہ ترکی کی بیشتر سیاسی جماعتیں اپنے نعروں کو سیاسی، جمہوری اور معاشی مسائل پر مرکوز رکھتی ہیں، اوزداغ نے ایک انوکھا نعرہ اپنایا جس نے محض ایک ماہ میں ان کی نئی پارٹی کو ترکی کی 10 طاقتور ترین جماعتوں میں شامل کر دیا۔ انہوں نے "شامی اور افغان پناہ گزینوں کو ملک سے نکالنا ضروری ہے” کا نعرہ لگایا، جس نے لاکھوں انتہائی قوم پرستوں کو اپنی طرف متوجہ کیا اور انہیں ایک بہادر اور ہیرو رہنما کے طور پر دیکھا جانے لگا۔
اوزداغ کے بار بار 50 لاکھ شامی اور 10 لاکھ افغان پناہ گزینوں کے ترکی میں رہنے کے خطرات پر زور دینے کی وجہ سے یہ معاملہ قومی سلامتی کے خطرے میں تبدیل ہو گیا، اور ترکی کے کئی شہروں جیسے کایسری اور غازی انتیپ میں ترک شہریوں اور شامی پناہ گزینوں کے درمیان جھڑپیں اور حملے ہوئے۔ نتیجتاً، ترکی کی سیکیورٹی اور عدالتی اداروں نے ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا شروع کر دی۔
معاملہ اس نہج تک پہنچ گیا کہ امید اوزداغ صرف تقریروں تک محدود نہیں رہے، بلکہ خود سڑکوں پر نکلے۔ مثال کے طور پر، انہوں نے استنبول میں ایک شامی سنار کے ساتھ موبائل فون سے انٹرویو کیا اور کہا کہ لوگو! دیکھا؟ یہ شامی پناہ گزین اب استنبول میں دکان چلا رہا ہے، ترکی کا شناختی کارڈ رکھتا ہے اور لائسنس یافتہ ہتھیار بھی رکھتا ہے۔
ان ویڈیوز اور اوزداغ کے روزمرہ کے مشاہدات نے بہت سے حامیوں کو متاثر کیا۔ انہوں نے اخباراتی مضامین میں یہ بھی اشارہ کیا کہ شامی بحران کے آغاز سے اب تک ترکی میں 6 لاکھ سے زائد شامی بچے پیدا ہو چکے ہیں، اور یہ کہ شامی اور افغان پناہ گزینوں کی موجودگی سے ترکی کی آبادیاتی ساخت اور نسلی خصوصیات خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔
ان موثر مہمات کا نتیجہ یہ نکلا کہ 2023 کے صدارتی انتخابات میں اوزداغ نے دو سنہری وعدے حاصل کر کے اردوغان مخالف اتحاد میں شمولیت اختیار کی۔ ان وعدوں میں شامل تھے:
1. اردوغان کی شکست کے بعد MIT (ترکی کی خفیہ ایجنسی) کی سربراہی اوزداغ کو دی جائے گی۔
2. اوزداغ کو ایک قومی حکمت عملی ترتیب دینے کی اجازت ہوگی، جس میں اگر ضرورت پڑی تو طاقت کے استعمال سے بھی شامی پناہ گزینوں کو ملک بدر کیا جائے گا۔
عدالتی کارروائی اور متنازعہ سماعت
استنبول کی اٹھارویں کرمنل کورٹ نے سیلیوری جیل میں منعقدہ سماعت کے دوران اوزداغ نے کہا کہ میں اور میری پارٹی کا ماننا ہے کہ اقوام متحدہ اور یورپی یونین نے ترکی کے ساتھ مہاجرین کے معاملے پر بڑا ظلم کیا ہے۔ ہمارا ملک پناہ گزینوں کا اڈہ بن چکا ہے۔ ہم اس ناانصافی کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔ ہمارا ملک لاکھوں غیر قانونی مہاجرین کے دباؤ میں ہے جو شام، افغانستان اور دیگر ممالک سے آ رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں نے ایک ماہر کے طور پر قومی سلامتی کے خطرات کو اجاگر کیا ہے۔ اگر میں نے انتباہ نہ کیا ہوتا تو یہ غیر قانونی ہوتا۔ میں نے اپنی زندگی ترکی کی سلامتی اور خوشحالی کے لیے وقف کر دی ہے۔
اوزداغ کی گرفتاری اور عدالتی کارروائی نے ترکی کی سیاسی صورتحال کو بدل دیا۔ انہیں نفرت انگیز تقریر اور صدر کو توہین کے الزام میں جیل بھیج دیا گیا، لیکن کچھ مہینوں بعد ہی انہیں رہا کر دیا گیا۔
تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اوزداغ کی گرفتاری نے دیگر حکومتی مخالفین کو سبق سکھا دیا ہے، اور اب کوئی بھی شامی پناہ گزینوں کی deportation کا مطالبہ کرنے کی ہمت نہیں کرتا۔

مشہور خبریں۔

امریکہ نے قطر کو دھوکہ دیا؛ عرب ممالک کے لیے خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے : یمنی تجزیہ کار

?️ 21 ستمبر 2025سچ خبریں: اسرائیلی ریجنٹ کے حالیہ دوحہ پر ہوائی حملے، جس میں امریکی

موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے 30 سال تک کی پیشگوئیاں درست ثابت

?️ 1 ستمبر 2025سچ خبریں: نئے مطالعے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی

کیا یوکرین بنے گا دوسرا افغانستان

?️ 22 اپریل 2024سچ خبریں: یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے امریکی ایوان نمائندگان میں

نیتن یاہو کو قبول کرنے سے انصاف کی توہین

?️ 6 فروری 2025سچ خبریں: اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دورے کو امریکہ

وزیر داخلہ کا دعویٰ، اپوزیشن جماعت سے بھی کچھ لوگ صادق سنجرانی کو ووٹ دیں گے

?️ 11 مارچ 2021اسلام آباد (سچ خبریں) وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے دعویٰ

امریکا افغانستان کے منجمد اثاثوں کو بحال کرے، پاکستان کا مطالبہ

?️ 20 اگست 2022اسلام آباد: (سچ خبریں)پاکستان نے ایک بار پھر امریکا پر زور دیا

غزہ جنگ میں زیادہ کامیابیاں حماس کو ملی ہیں یا اسرائیل کو؟صیہونی کنیسٹ رکن کا اعتراف

?️ 30 مارچ 2024سچ خبریں: صیہونی تجزیہ کاروں نے کہا کہ بنیامین نیتن یاہو کی

غزہ میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کہاں تک پہنچی؟

?️ 10 نومبر 2023سچ خبریں:  غزہ کی پٹی میں فلسطینی مزاحمتی گروپوں کے زیر حراست

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے