سچ خبریں:امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک اور متنازع قدم اٹھاتے ہوئے یمن کی مزاحمتی تحریک انصاراللہ کو عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر دیا, یہ فیصلہ دراصل فلسطینی مزاحمت، خصوصاً غزہ کی حمایت کرنے والے محاذ کو کمزور کرنے کی ایک کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
اسرائیل کی حمایت میں ایک اور قدم
ڈونلڈ ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس میں دوبارہ قدم رکھتے ہی، امریکہ نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ وہ صہیونی حکومت، خاص طور پر نیتن یاہو کے ایجنڈے کی مکمل حمایت کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ نیویارک ٹائمز نے رپورٹ دی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر انصاراللہ یمن کو دہشت گرد تنظیموں کی عالمی فہرست میں شامل کر دیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: انصاراللہ کا انگوٹھا اسرائیل اور امریکہ کی شہ رگ پر
وائٹ ہاؤس کے حکام نے انصاراللہ پر الزام لگایا کہ اس کی سرگرمیاں خطے میں امریکی شہریوں اور بین الاقوامی سیکیورٹی کے لیے خطرہ ہیں، حالانکہ ان الزامات کی کوئی واضح بنیاد نہیں دی گئی۔
اقوام متحدہ کے اہلکاروں کی گرفتاری؛ ایک نیا پروپیگنڈہ
اسی دوران، یمن میں اقوام متحدہ کے سات اہلکاروں کی گرفتاری کی خبریں سامنے آئیں، جس نے عالمی میڈیا کی توجہ حاصل کی، تاہم، یمنی مزاحمتی گروہوں نے کئی بار واضح کیا ہے کہ امریکی اور صہیونی جاسوس تنظیمیں، اقوام متحدہ کے اہلکاروں کے بھیس میں یمن میں خفیہ کارروائیاں انجام دیتی رہی ہیں۔ ان سرگرمیوں نے اقوام متحدہ کی غیر جانبداری کو بھی سوالیہ نشان بنا دیا ہے۔
روئٹرز کے مطابق، اقوام متحدہ کے اہلکاروں کی گرفتاری کے بعد سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریش نے یمن میں تمام انسانی امدادی سرگرمیوں کو معطل کر دیا۔ اس اقدام کے باعث پہلے سے بحران زدہ یمنی عوام کے لیے خوراک، ادویات اور بنیادی ضروریات کی فراہمی مزید مشکل ہو گئی ہے۔
اسی طرح، ایسوسی ایٹڈ پریس نے رپورٹ کیا کہ اقوام متحدہ کے اہلکاروں کی نقل و حرکت معطل ہونے کے بعد، یمن کے ان علاقوں میں امداد کی فراہمی ناممکن ہو گئی ہے جو انصاراللہ کے کنٹرول میں ہیں۔
یمن پر مسلسل حملے اور فلسطین کے ساتھ یکجہتی
پچھلے چند سالوں سے یمن کی عوام ایک بدترین انسانی بحران سے گزر رہی ہے، جس میں حالیہ مہینوں میں امریکہ، برطانیہ، اور اسرائیل کے فضائی حملوں نے مزید اضافہ کر دیا ہے۔ اس کے باوجود، انصاراللہ نے فلسطین کی جدوجہد کی حمایت جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے اور صہیونی حملوں سے خوفزدہ نہ ہونے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
انصاراللہ کی جانب سے قیدیوں کی رہائی اور امن پسندی کا مظاہرہ
انصاراللہ کو بدنام کرنے کی امریکی کوششوں کے باوجود، اس نے سعودی اتحاد کے درجنوں قیدیوں کو رہا کر کے اپنی پرامن پالیسی اور انسانی ہمدردی کا ثبوت دیا ہے۔
عبدالملک بدرالدین الحوثی کی قیادت میں، حوثی مزاحمتی تحریک نے سعودی عرب کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے میں اہم کردار ادا کیا، جب کہ یمنی وزیر خارجہ جمال عامر نے سعودی عرب پر امن کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کا الزام عائد کیا۔
انصاراللہ کے خلاف بڑھتے دباؤ کی وجوہات
اگرچہ انصاراللہ نے کئی بار بین الاقوامی برادری اور اقوام متحدہ کے ساتھ تعاون کا مظاہرہ کیا ہے، لیکن امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے اس پر دباؤ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
انصاراللہ کے زیر کنٹرول بندرگاہیں، جو یمنی عوام کے لیے خوراک اور زندگی کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں، بار بار امریکی اور برطانوی فضائی حملوں کا نشانہ بن چکی ہیں۔
امریکہ، اسرائیل اور اقوام متحدہ کا متنازع کردار
موجودہ حالات میں، امریکی اقدامات، اسرائیل کی خفیہ سرگرمیاں اور اقوام متحدہ کی سرگرمیوں کی معطلی کا ایک ساتھ ہونا، اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ایک منظم منصوبے کے تحت غزہ کی حمایت کرنے والے محاذ کو کمزور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اقوام متحدہ کا دفتر یا خفیہ ایجنسیوں کا اڈہ؟
انصاراللہ کی انٹیلیجنس رپورٹوں کے مطابق، صہیونی اور امریکی جاسوس، اقوام متحدہ کے اہلکاروں کے بھیس میں، یمن میں اہم فوجی اور بنیادی ڈھانچے کی معلومات اکٹھی کرتے رہے ہیں۔
یہ حیران کن نہیں کہ کچھ مہینے پہلے، صنعاء، الحدیدہ، صعدہ، اور عمران میں اقوام متحدہ کے چند اہلکاروں کو جاسوسی کے الزامات میں گرفتار کیا گیا تھا۔
یہاں سب سے بڑا تضاد یہ ہے کہ جب اسرائیلی فوج نے غزہ یا لبنان میں اقوام متحدہ کے دفاتر کو نشانہ بنایا تھا، تب انہیں دہشت گردوں کے ساتھ روابط کے الزامات پر بمباری کا نشانہ بنایا گیا، لیکن جب انصاراللہ اقوام متحدہ کے اہلکاروں کی سرگرمیوں کی چھان بین کرتا ہے، تو اس پر بین الاقوامی دباؤ ڈال دیا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ امریکہ کا انصاراللہ کو دہشت گرد قرار دینا، اسرائیل کی ایما پر کیا جانے والا ایک اقدام ہے، جس کا مقصد غزہ کی حمایت کرنے والے محاذ کو کمزور کرنا ہے۔
دوسری جانب، یمنی عوام پر معاشی اور عسکری دباؤ ڈال کر انہیں اسرائیلی جارحیت کے خلاف آواز بلند کرنے سے روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
تاہم، انصاراللہ نے واضح کر دیا ہے کہ وہ فلسطین کے ساتھ اپنی حمایت جاری رکھے گا اور امریکی و صہیونی سازشوں کے سامنے جھکنے والا نہیں۔
ٹرمپ کی چال ناکام؛ حماس اور فلسطینی مزاحمتی محاذ کی انصاراللہ کے ساتھ یکجہتی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یمن کی مزاحمتی تحریک انصاراللہ کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کرنے کا ایک بنیادی مقصد صہیونی حکومت، خاص طور پر بنیامین نیتن یاہو کی پالیسیوں کی مکمل حمایت تھا۔
تاہم، ٹرمپ کا یہ اقدام الٹا پڑ گیا، کیونکہ یہ فیصلہ انصاراللہ کو کمزور کرنے کے بجائے، فلسطینی اور یمنی مزاحمتی قوتوں کو مزید متحد کر گیا۔
حماس کی فوری مذمت؛ فلسطینی مزاحمت انصاراللہ کے ساتھ کھڑی ہے
ٹرمپ کے اس فیصلے کے چند ہی گھنٹوں بعد، فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے ایک سخت مذمتی بیان جاری کیا۔
حماس نے ٹرمپ کے اقدام کو انصاراللہ کے خلاف ایک انتقامی کارروائی قرار دیا اور واضح کیا کہ اس کا اصل مقصد یمن کی اس تحریک کو سزا دینا ہے، جو فلسطینیوں، خاص طور پر غزہ کے عوام کی بھرپور حمایت کر رہی ہے۔
حماس نے اپنے بیان میں دو بنیادی نکات پر روشنی ڈالی:
1. امریکہ کے امن و استحکام کے دعوے کی حقیقت بے نقاب ہوگئی – واشنگٹن کا ہمیشہ سے یہ دعویٰ رہا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں استحکام کا خواہاں ہے، لیکن انصاراللہ کو دہشت گرد قرار دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکہ کا اصل ہدف خطے میں صہیونی ایجنڈے کو تقویت دینا اور مزاحمتی تحریکوں کو کمزور کرنا ہے۔
2. صہیونی حکومت دہشت گردی اور عدم استحکام کی اصل جڑ ہے – حماس نے واضح کیا کہ اسرائیلی حکومت کی جارحانہ اور توسیع پسندانہ پالیسیاں ہی خطے میں کشیدگی اور دہشت گردی کا اصل سبب ہیں۔ جبکہ واشنگٹن، تل ابیب کی پالیسیوں کی اندھی تقلید کر کے پورے خطے میں مزید عدم استحکام پیدا کر رہا ہے۔
جہاد اسلامی فلسطین کا بھی انصاراللہ کے ساتھ اظہار یکجہتی
حماس کے ساتھ ساتھ، اسلامی جہاد فلسطین نے بھی امریکہ کے فیصلے پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ایک الگ بیان جاری کیا۔ اس بیان میں، انہوں نے انصاراللہ کے خلاف امریکی الزامات کو بے بنیاد قرار دیا اور اس فیصلے کو فلسطینی عوام کے خلاف کی جانے والی مسلسل سازشوں کا حصہ قرار دیا۔
جہاد اسلامی فلسطین نے مزید کہا کہ امریکہ اور اسرائیل خطے میں مزاحمت کے خلاف تفرقہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن ان کی ہر سازش الٹ ہو رہی ہے۔
مزید پڑھیں: سعودی عرب کی سلامتی کونسل سے انصاراللہ کو دہشت گرد قرار دینے کی درخواست
آج، صورتحال یہ ہے کہ مزاحمتی محاذ کا کوئی بھی رکن اگر کسی دباؤ میں آتا ہے، تو اس کے دوسرے اتحادی فوراً اس کے حق میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔
مزاحمتی محاذ مزید مضبوط
واشنگٹن اور تل ابیب کا خیال تھا کہ انصاراللہ کو دہشت گرد قرار دے کر اسے عالمی سطح پر الگ تھلگ کر دیا جائے گا، لیکن یہ چال ناکام ہوگئی۔ فلسطینی مزاحمتی گروہوں نے یمن کی اس تحریک کے ساتھ کھڑے ہو کر واضح پیغام دے دیا کہ اگر امریکہ اور اسرائیل ایک محاذ کو نشانہ بنائیں گے، تو مزاحمتی اتحاد کے دیگر ارکان ایک دوسرے کی حمایت کے لیے کھڑے ہوں گے۔