🗓️
سچ خبریں:یورپ کے بے مثال دباؤ، مغربی ممالک میں عوامی اور طلبہ احتجاج، اور بڑھتی ہوئی عالمی تنہائی نے اسرائیل کو شدید بحران سے دوچار کر دیا ہے۔ کیا بین الاقوامی دباؤ کے باعث نتن یاہو غزہ میں نسل کشی روکنے پر مجبور ہوں گے؟
یورپ کا بے مثال دباؤ، مغرب میں عوامی اور طلبہ احتجاجات نیز عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی انزوا نے صہیونی حکومت کو سیاسی زوال کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے، کیا بین الاقوامی دباؤ کی اس نئی لہر کے سامنے نتن یاہو غزہ میں نسل کشی روک دے گا؟
گزشتہ دنوں میں، یورپ کا سیاسی و سماجی ماحول صہیونی حکومت کی غزہ میں جارحانہ کارروائیوں کے جواب میں شدید طور پر متاثر ہوا ہے؛ عوامی مظاہروں کی بے مثال لہر، جامعاتی تحریکات، سفارتی دباؤ اور مغربی حکومتوں کی طرف سے تادیبی اقدامات نے یہ ظاہر کر دیا ہے کہ تل ابیب کی روایتی حمایت اب ٹوٹ رہی ہے۔
غزہ میں نسل کشی کی شدت کے ساتھ ساتھ، یورپی ممالک نہ صرف رسمی سطح پر زیادہ واضح مؤقف اختیار کر رہے ہیں بلکہ عملی طور پر بھی صہیونی حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظرثانی کے لیے اقدامات کر رہے ہیں، یہ تبدیلیاں صہیونی حکومت کے بین الاقوامی مقام کے لیے ایک سنگین موڑ اور بنیامین نتن یاہو کے لیے ایک سنجیدہ امتحان شمار ہو رہی ہیں۔
یورپ میں انسدادِ صہیونیت کی اقدامات کا تکمیلی پزل
حالیہ دنوں میں یورپ بھر میں سفارتی، سیاسی اور عوامی سطح پر صہیونیت مخالف اقدامات کی لہر دیکھی گئی ہے، جن میں سب سے اہم اقدامات کی فہرست ذیل میں پیش کی جاتی ہے:
1. یورپی یونین اور اسرائیل کے معاہدے پر نظرثانی
ایک بے مثال اقدام کے طور پر، یورپی یونین کے 17 رکن ممالک نے صہیونی حکومت کے ساتھ شراکت داری کے معاہدے پر سنجیدہ نظرثانی کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ مطالبہ غزہ میں شہادتوں کی تعداد میں اضافے، رہائشی علاقوں کی مسلسل بمباری اور انسانی امداد کی فراہمی میں رکاوٹوں کے بعد سامنے آیا ہے۔ مخالف ممالک کا ماننا ہے کہ ایسی صورت حال میں تل ابیب کے ساتھ سیاسی و اقتصادی تعاون جاری رکھنا، جبکہ اس پر سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام ہے، یورپی یونین کے بنیادی اقدار، خصوصاً حقوقِ انسانی کے دفاع، کے منافی ہے۔
یہ نظرثانی تجارتی مراعات، تحقیقی تعاون اور سرکاری روابط پر بھی اثرانداز ہو سکتی ہے، جن سے صہیونی حکومت ماضی میں فائدہ اٹھاتی رہی ہے۔ اگر اس نظرثانی کے نتیجے میں معاہدے معطل یا بنیادی طور پر تبدیل ہو گئے تو یہ بروکسل–تل ابیب تعلقات میں ایک سنگ میل ثابت ہو گا۔
2. برطانیہ کی جانب سے صہیونی حکومت کے ساتھ تجارتی مذاکرات کی معطلی
برطانوی حکومت نے ایک علامتی مگر مؤثر اقدام کے طور پر صہیونی حکومت کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے پر مذاکرات معطل کر دیے ہیں۔ یہ فیصلہ اندرونی اور بین الاقوامی سطح پر غزہ سے متعلق نتن یاہو کی پالیسیوں پر بڑھتی ہوئی تنقید کے تناظر میں کیا گیا ہے۔ لندن نے مغربی کنارے کے انتہا پسند آبادکاروں پر سفری پابندی اور اثاثوں کی منجمدی سمیت ٹارگٹڈ پابندیاں بھی عائد کی ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ بریگزٹ کے بعد برطانیہ نے تل ابیب کے خلاف اس قدر کھلا اور تنبیہی موقف اختیار کیا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ اقدام عدم اطمینان کے اظہار کے لیے ایک محتاط قدم ہے، لیکن اس سے روابط کے مکمل خاتمے کا ارادہ ظاہر نہیں ہوتا۔ ساتھ ہی برطانوی حکومت کو انسانی حقوق کی تنظیموں اور پارلیمانی اراکین کے دباؤ کا سامنا ہے جو تل ابیب کے خلاف مزید سخت پابندیوں کے مطالبہ کر رہے ہیں۔ لندن اور تل ابیب کے قریبی سفارتی تعلقات کے تناظر میں یہ معطلی نتن یاہو کابینہ کے لیے وارننگ قرار دی جا رہی ہے، اور اگر بحران جاری رہا تو یہ مزید سخت اقدامات کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔
3. برطانیہ، فرانس اور کینیڈا کی طرف سے اقدام کی دھمکی
برطانیہ، فرانس اور کینیڈا نے ایک مشترکہ اور ہم آہنگ موقف اختیار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر صہیونی حکومت نے رفح میں فوجی کارروائیاں فوری طور پر نہ روکیں اور انسانی امداد کی فراہمی پر پابندی برقرار رکھی تو ان ممالک کی جانب سے صہیونی حکومت کے خلاف واضح اقدامات کیے جائیں گے۔ یہ انتباہ رفح میں عام شہریوں کی بڑے پیمانے پر ہلاکتوں اور امدادی راستوں کی بندش سے متعلق رپورٹوں کے بعد جاری کیا گیا ہے۔ ان تینوں ممالک کے حکام نے کہا ہے کہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے اصولوں کی پابندی تل ابیب کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی تعاون کی بنیادی شرط ہے۔
اس انتباہ کی اہمیت اس میں ہے کہ یہ تینوں ممالک عالمی اداروں میں صہیونی حکومت کے روایتی اتحادی رہے ہیں اور عام طور پر ان کا رویہ احتیاط پر مبنی ہوتا ہے۔ اگرچہ ابھی ان ممکنہ پابندیوں کی نوعیت واضح نہیں، لیکن اس سے عالمی سطح پر تل ابیب پر بڑھتے ہوئے دباؤ اور سفارتی لہجے میں تبدیلی کا اظہار ہوتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر صہیونی حکومت کی جارحیت جاری رہی اور مغربی عوامی رائے حکومتوں پر دباؤ ڈالتی رہی تو یہ انتباہات معاشی پابندیوں یا عسکری تعاون کی معطلی میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔
4. آئرلینڈ کی جانب سے صہیونی حکومت کی کارروائیوں کی شدید مذمت
آئرلینڈ نے حالیہ دنوں میں صہیونی حکومت کی غزہ میں کھلی نسل کشی کے خلاف نہایت واضح اور سخت موقف اختیار کیا ہے۔ نائب وزیراعظم مائیکل مارٹن نے اپنی بے مثال گفتگو میں اس حکومت پر غزہ میں نسل کشی کا الزام عائد کیا اور کہا کہ ان حملوں کا تسلسل اور عام شہریوں کی جان کی ناقدری عالمی برادری کو عملی اقدامات اٹھانے پر مجبور کر رہی ہے۔ آئرش پارلیمنٹ کے اراکین نے تجارتی پابندیوں اور اسرائیل کے خلاف بین الاقوامی عدالتوں میں قانونی چارہ جوئی جیسے اقدامات پر بھی زور دیا ہے۔
آئرلینڈ یورپی یونین میں روایتی طور پر صہیونی قبضہ گیری کے خلاف سخت موقف رکھنے والا ملک رہا ہے، مگر حالیہ بیانات اور پالیسی میں غیر معمولی شدت اور وضاحت آ گئی ہے۔ یہ موقف دوبلن اور آئرلینڈ کے دیگر شہروں میں بڑھتے ہوئے عوامی احتجاجات کے پس منظر میں مزید مضبوط ہوا ہے۔ اگرچہ آئرلینڈ بڑی اقتصادی طاقت نہیں، مگر اس کا یہ رویہ دیگر یورپی ممالک کے لیے نمونہ بن سکتا ہے، بالخصوص ان کے لیے جو ماضی میں فلسطین سے ہمدردی رکھتے آئے ہیں۔
5. اسرائیلی جرائم کے خلاف سماجی بیداری؛ سڑکوں سے یونیوسٹیوں تک
حالیہ دنوں میں یورپ بھر میں صہیونی حکومت کے جارحانہ اقدامات کے خلاف بے مثال عوامی اور جامعاتی احتجاج کی لہر اٹھی ہے۔ لندن، ہیگ، میڈرڈ، پیرس اور برلن سمیت متعدد شہروں میں لاکھوں افراد نے سڑکوں پر نکل کر غزہ کے عوام سے اظہار یکجہتی اور محاصرہ و فوجی حملوں کے خلاف احتجاج کیا۔ یہ مظاہرے وسیع میڈیا کوریج اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی حمایت کے ساتھ ہو رہے ہیں، جو یورپی عوامی رائے میں فلسطین کے حق میں گہرے تبدیلی کی علامت ہیں۔ اس احتجاج میں معاشرے کے ہر طبقے، جیسے مزدور، فنکار، ڈاکٹر وغیرہ، نے حصہ لیا ہے۔
اسی تناظر میں، جامعات احتجاجی تحریک کی دوسری بڑی بنیاد بن گئی ہیں۔ ہالینڈ، فرانس، برطانیہ اور جرمنی کی جامعات میں طلبہ نے یونیورسٹی کیمپس پر دھرنے اور رات بھر تحصن کر کے صہیونی اداروں سے تعلیمی و مالی تعاون کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ متعدد مواقع پر جامعات کے اساتذہ نے بھی ان احتجاجات کی حمایت کی اور کئی جامعات کو اپنے مالی روابط اور سرمایہ کاری شفاف بنانے پر مجبور کیا گیا۔
یہ سڑک اور یونیورسٹی کی یکجہتی، صہیونی حکومت کے ساتھ تعلقات کی عادی سازی کے خلاف ایک ساختی عمل بن چکی ہے جو حکومتوں کو زیادہ جرات مندانہ سفارتی فیصلوں کی طرف لے جا سکتا ہے۔
تل ابیب اور نتن یاہو کے لیے انسداد اسرائیل اقدامات کے مقامی، علاقائی اور بین الاقوامی نتائج
یورپ میں حالیہ انسدادِ صہیونیت اقدامات، علامتی پابندیوں سے لے کر وسیع پیمانے پر عوامی احتجاج تک، اسرائیل کی مغرب میں معنوی پوزیشن اور بین الاقوامی قانونی جواز میں واضح کمی کی نشاندہی کر رہے ہیں؛ وہ سرمایہ جو گذشتہ دہائیوں میں فرضی سکیورٹی بیانیے اور سفارتی لابیوں کے ذریعے برقرار رکھا گیا تھا۔ یہ عمل نہ صرف اسرائیلی حکومت کے اخلاقی تشخص کو عوامی رائے میں متاثر کر رہا ہے بلکہ یورپی حکومتوں پر سیاسی، معاشی اور عسکری تعاون کے حوالے سے بھی دباؤ بڑھا رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ رجحان طویل مدت میں اسرائیل کے بین الاقوامی اداروں میں مقام کو شدید متاثر کر سکتا ہے۔
معاشی لحاظ سے بھی، یورپ کی طرف سے نرم پابندیوں اور خاص طور پر جامعات، تجارت اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں دباؤ، مقبوضہ علاقوں کی معیشت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ بہت سے تحقیقاتی اور جدید تکنیکی منصوبے یورپی اداروں کی شراکت سے جڑے ہیں۔ اگر دباؤ جاری رہا تو صہیونی حکومت ممکنہ طور پر بڑے مالی اور سائنسی وسائل سے محروم ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ، عالمی کمپنیاں جو مقبوضہ علاقوں میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں، سماجی بائیکاٹ یا پابندیوں کا نشانہ بن سکتی ہیں، جس سے غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی واقع ہو گی۔
داخلی طور پر، یہ صورت حال نتن یاہو کی سیاسی پوزیشن کو مزید کمزور کر سکتی ہے۔ ان کی کابینہ پہلے ہی اندرونی عدم اطمینان، سیاسی تقسیم اور غزہ میں فوجی ناکامی کے بحران سے دوچار ہے۔ بین الاقوامی سطح پر اتحادیوں کی جانب سے سخت اقدامات نتن یاہو حکومت کی بڑھتی ہوئی انزوا کی علامت ہیں اور ان کے اندرونی سیاسی مخالفین کے لیے بھی حوصلہ افزائی کا سبب بن سکتے ہیں۔
علاقائی اعتبار سے، یورپی سماجی اور قانونی دباؤ، خطے میں جیوپولیٹیکل توازن بدلنے کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔ اسرائیل کے لیے غیر مشروط حمایت میں کمی، خاص طور پر فلسطینی کاز کے حوالے سے، دیگر ممالک بالخصوص غیرجانبدار اور اسلامی دنیا کو بھی بین الاقوامی فورمز پر زیادہ مضبوط مؤقف اپنانے کا موقع دے سکتی ہے۔ اگرچہ یورپ کے اقدامات ابھی ابتدائی اور نرم نوعیت کے ہیں، تاہم ان میں تسلسل یا شدت آنے پر یہ اسرائیل کی خارجہ پالیسی اور داخلی طاقت کے توازن پر طویل مدتی اسٹریٹجک اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔
کیا نتن یاہو پسپائی اختیار کریں گے؟
حالیہ یورپی سیاسی پابندیاں، عوامی احتجاج، جامعاتی دباؤ اور معاشی تعلقات کی معطلی صرف ایک وقتی اور جذباتی ردعمل نہیں بلکہ تل ابیب کے بارے میں مغربی عوامی اور پالیسی رویے میں ایک بڑی اسٹریٹجک تبدیلی کی علامت ہیں،اس بار نہ صرف اسرائیل کے روایتی مخالفین بلکہ اس کے پرانے اتحادی بھی (جیسے برطانیہ، فرانس اور یہاں تک کہ واشنگٹن) نتن یاہو کابینہ پر اعتماد کھوتے جا رہے ہیں اور مختلف سطحوں پر پابندیاں یا انتباہات جاری کر رہے ہیں۔
عبری اخبار یدیعوت احرونٹ کے مطابق، صہیونی وزارت خارجہ کے ایک اہلکار نے سرکاری طور پر اسرائیل کی سنگین سفارتی صورت حال کو تسلیم کیا ہے، اس اہلکار کے بقول، اسرائیل اس وقت ایک حقیقی سونامی سے دوچار ہے؛ بین الاقوامی مقام کی نچلی ترین سطح، پابندیوں کا دائرہ وسیع ہونا اور دنیا بھر میں تل ابیب کے ساتھ تعاون میں نمایاں کمی، سب اس بات کا اشارہ ہیں کہ صہیونی حکومت کے لیے بین الاقوامی غیر مشروط حمایت تیزی سے کم ہو رہی ہے، یہاں تک کہ لندن میں اسرائیلی سفیر کی طلبی اور مغربی ممالک کے ساتھ تجارتی معاہدوں کی معطلی اس کی معیشت اور عالمی تشخص کے لیے سنگین خطرے کی گھنٹی ہے۔
اب بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا یہ بے مثال دباؤ نتن یاہو کو غزہ میں اپنی پالیسیوں میں تبدیلی پر مجبور کرے گا؟ ماضی کے تجربے سے معلوم ہوتا ہے کہ نتن یاہو نے بیرونی دباؤ کے سامنے شاذ و نادر ہی لچک دکھائی اور ہمیشہ اندرونی سیاسی بقا اور انتہائی دائیں بازو کے گروہوں کی خوشنودی کو ترجیح دی ہے، تاہم اس بار صورت حال مختلف ہے، کیونکہ نہ صرف بین الاقوامی سطح پر بلکہ مقبوضہ علاقوں کے اندر بھی حکومت کی ساکھ بری طرح متزلزل ہو چکی ہے۔
مزید پڑھیں:نیتن یاہو کی وجہ سے اسرائیلی عوامی دباؤ میں
لہٰذا اگرچہ ابھی اس بارے میں یقین سے کچھ کہنا ممکن نہیں کہ نتن یاہو پسپائی اختیار کریں گے یا نہیں، مگر عالمی دباؤ کی یہ سونامی ان کی پالیسی میں تبدیلی کو ناگزیر بنا سکتی ہے، چاہے وہ تبدیلی عارضی اور دباؤ کم کرنے کے لیے ہی کیوں نہ ہو۔ اسرائیلی حکومت کا مستقبل بیرونی دباؤ اور اندرونی تضادات کے درمیان توازن پر منحصر ہے۔
Short Link
Copied
مشہور خبریں۔
شام کی صورتحال؛ صیہونی ریاست کے لیے موقع، طویل مدتی خطرہ
🗓️ 2 دسمبر 2024سچ خبریں:اگرچہ ایک نظر سے دیکھا جائے تو شام کی تبدیلیاں اسرائیلی
دسمبر
حکومتِ پنجاب کا دعویٰ مسترد، ایچیسن کالج کے پرنسپل نے استعفیٰ واپس نہیں لیا
🗓️ 28 مارچ 2024لاہور: (سچ خبریں) حکومتِ پنجاب ابھی تک ایچی سن کالج کے پرنسپل
مارچ
بھارت اقوام متحدہ کے مبصرین، انسانی حقوق کے اداروں کو مقبوضہ جموں وکشمیرکا دورہ کرنے کی اجازت دے: حریت کانفرنس
🗓️ 24 نومبر 2024سرینگر: (سچ خبریں) غیرقانونی طورپر بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیر میں
نومبر
فلسطینی مزاحمتی تحریک کا صیہونی قیدی کا جنازہ صیہونیوں کے حوالے کرنے کا اعلان
🗓️ 20 فروری 2025 سچ خبریں:جہاد اسلامی تحریک کی عسکری شاخ سرایا القدس کے ترجمان
فروری
اسرائیلی حکومت کیا کرنا چاہتی ہے؟
🗓️ 6 اگست 2023سچ خبریں:اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں میں شام کے مستقل
اگست
کوئٹہ: حسان نیازی ایک روزہ راہداری ریمانڈ پر پنجاب پولیس کے حوالے
🗓️ 26 مارچ 2023کوئٹہ: (سچ خبریں) کوئٹہ کی مقامی عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی
مارچ
عمران ریاض کیس: درست سمت میں ہیں، 10 سے 15 روز میں اچھی خبر دیں گے، آئی جی پنجاب
🗓️ 13 ستمبر 2023اسلام آباد:(سچ خبریں) انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) پنجاب ڈاکٹر
ستمبر
آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت
🗓️ 9 مئی 2022اسلام آباد(سچ خبریں)آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کی
مئی