(سچ خبریں) امریکی صدر جو بائیڈن نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ان کے روسی ہم منصب ولادیمیر پیوٹن قاتل ہیں ساتھ ہی انہوں نے پیوٹن کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں امریکی صدارتی انتخاب میں مداخلت کی کوششوں کی قیمت چکانی پڑے گی۔
خبر ایجنسی رائٹرز کا کہنا ہے کہ امریکی نیوز چینل اے بی سی کو انٹرویو میں جو بائیڈن نے کہا کہ روسی صدر پیوٹن کو امریکی صدارتی انتخاب 2020ء ٹرمپ کے حق میں کرنے کی کوششوں کی ہدایات دینے پر نتائج کا بہت جلد سامنا کرنا پڑے گا۔
روس نے صدر بائیڈن کے بیان پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے امریکا سے اپنا سفیر واپس بلا لیا، روسی اسپیکر پارلیمنٹ نے بیان کو روس پر حملے کے مترادف قرار دیا ہے۔
روسی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق اپنے سفیر اناتولے انتونوف کو مشاورت کے لیے ماسکو طلب کیا ہے۔ روسی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ یہ اقدام تعلقات میں کسی بھی ناقابل تلافی نقصان سے بچنے کے لیے ہے۔
قبل ازیں امریکی محکمہ خزانہ کے بیرونی اثاثے کنٹرول (او ایف اے سی) دفتر نے امریکی انتخابات میں مداخلت کا الزام عائد کرتے ہوئے روس سے تعلق رکھنے والے 4 افراد پر پابندی عائد کررکھی ہے۔
محکمہ خارجہ اور او ایف اے سی نے ایندرل درکیچ پر امریکی صدارتی انتخاب 2020ء میں مداخلت کی کوششوں پر ایگزیکٹو آرڈر 13848 کے تحت پابندی عائد کر رکھی ہے۔
ایگزیکٹو آرڈر الزامات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ’روسی خفیہ ایجنسیوں کی ہدایات پر امریکی ووٹرز کی رائے پر اثر انداز ہونے والی مہم روس میں تیار کی گئی تھی‘۔ بائیڈن کا کہنا تھا کہ امریکی انٹیلی جنس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ’ماسکو کی جانب سے امریکی صدارتی انتخاب میں مداخلت کی کوششوں کے پیچھے پیوٹن تھے جبکہ روس ان الزامات کوبے بنیاد قرار دے کر مسترد کرتا رہا ہے۔
18مارچ کے انٹرویو میں بائیڈن کا کہنا تھا کہ ان کو اس بات کا علم ہے غیر ملکی قیادت سے معاملات نمٹانے کے لیے کس انداز سے کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
انٹرویو کے دوران پیوٹن کا ذکر کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ روسی صدر میں رحم نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے اور وہ بنیادی حقوق سے عاری ہے، سوال آپ پیوٹن کو قاتل سمجھتے ہیں کے جواب میں بائیڈن کا کہنا تھا کہ میں ایسا ہی سمجھتا ہوں۔
بائیڈن نے الزامات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ امریکا میں درکیچ کمپنی کے روسی خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں اور وہ روس کی ہدایات پر امریکی ووٹرز کی رائے پر اثر انداز ہونے والی مہم کا حصہ ہیں۔
امریکا کے 2016ء کے انتخاب میں بھی روس کی مداخلت کا الزام عائد کیا گیا تھا جبکہ روس نے ان الزامات کو مسترد کردیا تھا۔ گزشتہ صدارتی انتخاب کے بارے میں ایف بی آئی کے سابق سربراہ رابرٹ میولر کی جامع رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ روس نے ٹرمپ کی حمایت میں مداخلت کی تھی، تاہم یہ نہیں کہا گیا تھا کہ ٹرمپ کی مہم ماسکو سے چلائی گئی تھی۔
امریکا کے صدر نے یہ سب کچھ ایک ایسے کہا جب ایشیا کا مستقل کیسا ہوگا کے بارے میں دنیا کی دو بین الاقوامی کانفرنسوں کا انعقاد آئندہ چند دنوں میں جاری رہے گا اور اس بات کا فیصلہ ہو گا کہ دنیا میں ایشیا کے کون کون سے ممالک سُپر طاقت بن جائیں گے۔ اس سلسلے میں امریکا اور چین کے درمیان امریکی ریاست الاسکا میں طویل مذاکرات کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے، لیکن قبل ازیں امریکی کے مشیر قومی سلامتی جیک سلیوان اور ا مریکی اسٹیٹ سیکرٹری انٹونی بلنکن نے جاپان کا دورہ کیا جہاں سے جاری مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ چین کے متنازع اقدامات عالمی برادری کے لیے سیاسی معاشی اور عسکری مشکلات پیدا کر رہے ہیں اس کی وجہ سے امریکا اور چین کے درمیان 2019ء سے تجارتی جنگ نے متعدد مرتبہ دونوں ممالک کو حقیقی جنگ کی جانب دھکیل دیا تھا۔
2019ء میں امریکا نے چینی مصنوعات پر 16 ارب ڈالرکے اضافی محصولات عائد کیے تھے جس کے جواب میں چین نے بھی امریکی مصنوعات پر اضافی محصولات عائد کردیے تھے۔ اس کی وجہ سے امریکا اور چین کے درمیان ہونے والے مذاکرات ناکامی سے دوچار ہوتے رہے ہیں۔
اس سلسلے میں افغانستان میں قیام امن کے لیے ایک بڑی کانفرنس کا انعقاد ماسکو میں کیا جارہا ہے۔ جس میں افغان حکومت کا 50رکنی وفد عبداللہ عبداللہ کی قیادت میں شریک ہے۔
وفد میں حامدکر زئی، رشید دوستم اور مختلف قبائل کے افراد شامل ہیں اس کے علاوہ امریکا کی نمائندگی زلمے خلیل زاد اور طالبان کے وفد کی قیادت حکمت یار اور دیگر قائدین کریں گے۔ اس کانفرنس کے بارے میں اسی انٹرویو میں بائیڈن کا کہنا تھا کہ میں اس حوالے سے فیصلے پر کام کر رہا ہوں کہ کب فوج کو واپس بلانا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ حقیقت یہ ہے کہ سابق صدر ٹرمپ نے بہتر انداز سے معاہدہ نہیں کیا۔ ان کی انتظامیہ طالبان اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے معاہدے کا جائزہ لے رہی ہے، جس کے تحت معاہدے پر مکمل عمل درآمد کی صورت میں یکم مئی تک مکمل فوجی انخلا ہوگا۔
امریکا اپنے اتحادیوں کے ساتھ مشاورت کر رہا ہے اور یہ عمل ابھی جاری ہے لیکن تمام فوجیوں کا یکم مئی تک افغانستان چھوڑنا مشکل فیصلہ ہوگا۔ اس کے جواب میں طالبان نے ایک ہفتہ میں دوسری بار امریکا سے کہا ہے کہ اگر یکم مئی تک غیر ملکی افواج کا انخلا نہ ہوا تو جنگ کو روکنا ناممکن ہو جائے گا۔
اس تمام صورتحال سے بظاہر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ امریکا ایک ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے جس کے ذریعے دنیا میں قیام امن کی کوششوں کو ختم کرکے چین اور روس سے پراکسی جنگ اور افغانستان میں قیام امن کی کوشش کو تباہ کیا جائے۔
اس سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے آئندہ دس سے پندرہ دنوں میں عالمی سطح پر بڑے ممالک کے درمیان تلخیاں عروج پر پہنچ جائیں گی اور دنیا میں ایک مرتبہ جنگوں اور قتل و خون کا بازار گرم کرنے کی کوششوں کی کامیابی کا خدشہ پیدا ہوجائے گا اور یہی بائیڈن انتظامیہ کی کوشش ہے، اسی لیے بائیڈن نے پیوٹن کو قاتل کہہ کر اعلان جنگ کر دیا ہے۔