سرینگر: (سچ خبریں) جموں و کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کے اقلیتی برداری کی صورتحال پر ایک بیان نے تنازع کھڑا کر دیا ہے۔ انہوں نے اپنے بیان میں انڈیا کا موازنہ بنگلہ دیش سے کیا ہے۔
انڈیا ٹوڈے کے مطابق انڈیا کے زیرِانتظام کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ نے 24 نومبر کو اترپردیش کے شہر سنبھل میں پیش آنے والے واقعے پر افسوس کا اظہار کیا۔
انہوں نے اتوار کو اپنی پارٹی کے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’آج مجھے ڈر ہے کہ ہمیں اسی طرف لے جایا جا رہا ہے جو حالات 1947 میں تھے۔ نوجوان جب نوکریوں کی بات کرتے ہیں تو نہیں ملتیں، ہمارے پاس اچھے ہسپتال نہیں، تعلیم نہیں ہے۔ وہ سڑکوں کی حالت کو بہتر نہیں کر رہے لیکن ایک مندر کی تلاش میں مسجد کو گرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سنبھل واقعہ بہت افسوسناک ہے۔ کچھ لوگ دکانوں میں کام کر رہے تھے اور گولی مار دی گئی۔‘
24 نومبر کو انڈیا کی ریاست اترپردیش کے شہر سنبھل میں ایک مسجد کے سروے کے موقع پر تشدد پھوٹ پڑا تھا جس کے نتیجے میں چار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
مسلمان مظاہرین اور پولیس کے درمیان یہ جھڑپیں اُترپردیش کے شہر سمبھل میں ایک سروے کے موقعے پر ہوئیں جس میں یہ جائزہ جا رہا تھا کہ 17ویں صدی کی مسجد ہندوؤں کے مندر پر تعمیر کی گئی تھی یا نہیں؟
ایک ہندو پنڈت کی جانب سے عدالت میں دائر ایک درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ مسجد ایک ہندو مندر کی جگہ پر تعمیر کی گئی ہے۔
اس سلسلے میں ایک مقامی عدالت نے سروے کا حکم دیا تھا۔ مقامی باشندوں نے اس سروے کی مخالفت کی اور صورتحال کشیدہ ہو گئی۔
محبوبہ مفتی کے بیان کی بی جے پی کے کئی رہنماؤں نے مذمت کی ہے اور ان ریمارکس کو ’ملک دشمنی‘ پر مبنی قرار دیا ہے۔ بی جے پی کے رہنماؤں نے جموں و کشمیر کی حکومت پر زور دیا کہ وہ ان کے خلاف کارروائی کرے۔
انہوں نے کہا کہ ’بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔ اگر انڈیا میں بھی اقلیتوں پر مظالم ہوتے ہیں پھر انڈیا اور بنگلہ دیش میں کیا فرق ہے؟ مجھے انڈیا اور بنگلہ دیش میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔‘
خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق جموں و کشمیر کے بی جے پی کے سابق سربراہ رویندر رینا نے کہا کہ ’محبوبہ مفتی کا بنگلہ دیش کی صورتحال کا انڈیا سے موازنہ کرنے والا متنازع بیان سراسر غلط اور قابلِ مذمت ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’دنیا بنگلہ دیش میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں سے آگاہ ہے جہاں اقلیتی برادری کو ٹارگٹ حملوں کا سامنا ہے، خواتین کی توہین کی جاتی ہے اور ایک منتخب وزیراعظم کو ملک سے بھاگنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔‘
بی جے پی رہنما نے مطالبہ کیا کہ جموں و کشمیر حکومت کو محبوبہ کے ملک مخالف بیان اور اس کی سازشوں کا سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہیے۔ ان کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے۔‘
جموں کشمیر اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سنیل شرما نے کہا کہ محبوبہ مفتی کا بیان اسمبلی انتخابات میں شکست کے بعد ان کی پارٹی کو زندہ کرنے کی کوشش ہے۔
’پی ڈی پی مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے اور محبوبہ مفتی مسلمانوں کو مشتعل کر کے اپنی پارٹی کو دوبارہ فعال کرنے کے لیے اس طرح کے بیانات دے رہی ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ملک میں خاص طور پر جموں و کشمیر میں مسلمان محفوظ ہیں، وہ اس قسم کے بیانات سے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ بنگلہ دیش اور انڈیا کی صورتحال کا کوئی موازنہ نہیں۔‘