اسلام آباد:(سچی خبریں) وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ہماری دل میں کوئی انتقام نہیں لیکن جنہوں نے 9 مئی کو شہدا اور غازیوں کی بے حرمتی کی، ان کے یادگاروں کو پاؤں تلے روندا اور قائد اعظم ہاؤس کو جلایا ان کو قانون و آئین کے کٹہرے میں کھڑا کرنا ہوگا، اگر ان سے رعایت کی گئی تو یہ ملک نہیں بچے گا۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ 9 مئی کے واقعات میں جو سویلین تنصیبات ہیں صرف وہاں پر آئین و قانون کے مطابق انصاف کے تمام تقاضے پورے کرتے ہوئے انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات چلائے جائیں، جبکہ فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں پر آئین میں دیے ہوئے آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات چلیں کوئی نیا قانون بننے نہیں جا رہا۔
عمران خان کی طرف سے آرمی چیف کے حوالے سے کی گئی ٹوئٹ کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ اس میں بھی عمران نیازی نے واضح طور پر جھوٹ بولا ہے، یہ بات میں پوری ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ موجودہ سپہ سالار جنرل عاصم منیر جب ڈی جی آئی ایس آئی تھے انہوں نے اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کو کہا تھا کہ آپ کی اہلیہ محترمہ کرپشن میں ملوث ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ عمران نیازی نے ایک بار پھر قوم کے سامنے جھوٹ بولا ہے، یہی وجہ تھی کہ جنرل عاصم منیر کا تبادلہ ہوا تھا کیونکہ انہوں نے عمران خان کو کہا تھا کہ آپ کے اہل خانہ کرپشن میں ملوث ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ کرپشن تو وقت پر سامنے آجائے گی لیکن 60 ارب روپے کی کرپشن کا کیا کریں گے، سعودی ولی عہد کی طرف سے دی گئی قیمتی گھڑی فروخت کرکے اس کی جعلی رسید پیش کی گئی تو اس قوم کے ساتھ اس سے بڑا سنگین مذاق کیا ہو سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 60 ارب روپے کی کرپشن کا نوٹس قومی احتساب بیورو (نیب) نے جاری کیا تھا جس کا مجھے بھی علم نہیں تھا، بعد میں پتا چلا جب کورٹ میں ان کی گرفتاری ہوئی لیکن اس کے نتیجے میں 9 مئی کو اس ملک میں جو واقعات ہوئے وہ دلخراش تھے۔
شہباز شریف نے کہا کہ اس وقت کی متحدہ اپوزیشن کو مکمل طور پر دیوار سے لگایا گیا تھا، ان کو گھسیٹ کر لے جایا گیا تھا اور جیلوں میں کیا کیا ہوتا تھا، یہاں تک کہ جب کوئی اپوزیشن کا رکن گرفتار ہوتا تھا تو عمران نیازی خود جیل آکر ہدایات دیتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ 60 ارب روپے کوئی کم قیمت نہیں، سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں نہیں آنا چاہیے تھا، یہ سندھ حکومت کا پیسہ تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ کس طرح امریکا سے پاکستان کے تعلقات کو اڑایا گیا اور ایک جعلی خط لہرایا گیا اور کہا گیا کہ یہ امریکا کی سازش تھی، دن رات یہ جھوٹ بول کر لوگوں کے ذہن میں بٹھایا گیا کہ سازش کے ذریعے حکومت ختم کی گئی اور آج ان کو فون کیے جارہے ہیں کہ میری مدد کریں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ہمارے تعلقات نہیں بلکہ خارجہ پالیسی کو تباہ کیا گیا، چین کے لیے کہا گیا کہ اس نے سی پیک میں کرپشن کی ہے، آج وہ چین ہمالیہ کی طرح پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوا ہے اور جس طرح بھارت نے جی 20 کا اجلاس بلانے کی سازش کی ہے، چین نے وہاں جانے سے صاف انکار کردیا ہے، چین کو سلام کرتے ہیں جس نے مسئلہ کشمیر پر آج پھر پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے لہٰذا ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ چھوٹے وفود متعلقہ ہم منصبوں کے پاس بھیجیں گے جو ان کو صورتحال سے آگاہ کریں تاکہ ہم پاکستان کا دفاع کر سکیں۔
انہوں نے کہا کہ ہماری دل میں کوئی انتقام نہیں لیکن جنہوں نے 9 مئی کو شہیدوں اور غازیوں کی بے حرمتی کی ہے، اور ان کے یادگاروں کو پاؤں تلے روندا ہے اور قائد اعظم ہاؤس کو جلایا ان کو قانون و آئین کے کٹہرے میں کھڑا کرنا ہوگا، اگر ان سے رعایت کی گئی تو یہ ملک نہیں بچے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم منقسم مزاج نہیں ہیں، ہماری تربیت نواز شریف نے کی ہے، ہم نے بڑی بڑی مصیبتوں کو تحمل سے برداشت کیا، پیپلز پارٹی نے بڑے بڑے واقعات کو صبر و تحمل سے برداشت کیا مگر یہ واقعہ ایسا ہے جو میرے اور آپ (اسپیکر) کے کنٹرول سے باہر ہے، یہ قوم کی امانت ہے اور یہ امانت میں قوم کو واپس کروں گا۔
قبل ازیں قومی اسمبلی نے 9 مئی کو فوج اور ریاستی تنصیبات پر حملوں میں ملوث شر پسندوں کے خلاف آرمی ایکٹ اور انسداد دہشت گردی ایکٹ سمیت موجودہ قوانین کے تحت مقدمات چلانے کی قرارداد منظور کرلی۔
وزیر دفاع خواجہ آصف کی جانب سے پیش کی جانے والی قرارداد کو ایوان نے منظور کر لیا جب کہ اراکین اسمبلی کی بڑی تعداد نے اس کے حق میں ووٹ دیا۔
ایوان میں قرارداد پڑھتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ 9 مئی کو دلخراش اور دل دہلا دینے والے واقعات ہوئے اور اس دن کو یوم سیاہ قرار دیا جانا چاہیے۔
ان کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد میں کہا گیا کہ متعلقہ حکام کو یہ اختیار دیا جائے گا کہ وہ ملک کے اندر اور باہر پاکستانی اداروں کے خلاف سوشل میڈیا پروپیگنڈے سے نمٹ سکیں، اس طرح کی منفی پروپیگنڈا مہم میں ملوث افراد کے ساتھ قانون کے مطابق سختی سے نمٹا جائے۔
خواجہ آصف کے مطابق یہ قرارداد پارلیمنٹ کی جانب سے 9 مئی کے واقعات کی مذمت کا ایک طریقہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ 9 مئی کے جیسے پرتشدد واقعات نہ ہونے کی صورت میں بھی پاک فوج کا دفاع کرنا ہر رکن پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے۔
انہوں نے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے روز پرتشدد مظاہروں کی شدید مذمت کی اور فوجی تنصیبات پر حملے کے ذمے داروں کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ فوجی تنصیبات پر حملہ نہیں تھا بلکہ یہ حملہ پاکستان پر حملہ تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت باقاعدگی سے پاکستان میں اڈوں پر حملے کرتا رہا ہے لیکن پہلی بار ملک میں ایک سابق وزیر اعظم کے لوگوں کی جانب سے ان کے نشاندہی کردہ صرف فوجی مقامات پر میانوالی سے حملہ کیا گیا۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ جو قومیں اپنے شہدا کا احترام نہیں کرتیں وہ مٹ جاتی ہیں، کیا یہ پاکستانی ہیں؟ جن لوگوں نے ہمارے شہدا کی یادگاروں پر حملہ کیا، ان کے چہروں کی شناخت ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ آڈیو لیکس معاملے کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں کمیشن تشکیل دیا گیا ہے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔
قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آڈیو لیکس کے معاملے کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور دو ہائی کورٹ کے ججز پر مشتمل کمیشن قائم کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کمیشن کو اس ادارے کے ساتھ تشکیل دیا گیا ہے تاکہ دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے، جو تنازع چل رہا ہے اس کا نتیجہ نکل آئے کہ یہ جو لوگ جو آڈیو لیک کے کردار ہیں، ان کا پتا چل جائے کہ وہ کہاں تک اس میں شامل ہیں اور اس بات کا بھی تعین ہوجائے کہ یہ وہی لوگ ہیں تاکہ ان کی شناخت کے بعد عوام کو بھی ان کا چہرہ پتا چل جائے اور اگر کوئی قانونی چارہ جوئی ہونی ہے تو وہ بھی کی جاسکے۔
خواجہ آصف نے کہا ہے کہ آڈیو لیکس تحقیقاتی کمیشن میں اگر موجودہ تین ججز کی جگہ اگر جسٹس منیب، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی ہوتے تو پھر پی ٹی آئی کو تسلی ہوتی، پھر کبھی وہ سپریم کورٹ میں اس کے خلاف درخواست نہ دیتی۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے اس کمیشن کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے، ان کو ان تین ججز پر اعتراض ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا یہ کام ہے اور کسی کا یہ کام نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے کمیشن میں تینوں جج ہی رکھے ہیں، اس میں پارلیمنٹ کا کوئی رکن شامل نہیں ہے، اس میں کوئی ایسا شخص بھی نہیں رکھا جس کے متعلق یہ کہا جا سکے کہ اس کا کردار عدلیہ کے وقار اور اس کے تقدس کے منافی ہے۔
وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ کمیشن میں قاضی فائز عیسیٰ شامل ہیں جنہوں نے جس طرح سے اپنے کردار کے حوالے سے اپنے برادر ججز کی جانب سے کیے گئے حملے کے خلاف جو قانونی جنگ لڑی ہے، اس سے ان کی اپنی اور ان کے عہدے کی عظمت کی نشاندہی ہوتی ہے۔