اسلام آباد {سچ خبریں} پاکستان کے مختلف شہروں میں عالمی یومِ خواتین کے موقع پر عورت مارچ کا انعقاد کیا جارہا ہے جس میں شریک شہری ملک میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کا مطالبہ کررہے ہیں۔
یاد رہے کہ سال 2018 میں سب سے پہلے کراچی میں عورت مارچ کیا گیا تھا جس کے بعد اگلے سال مزید شہروں مثلاً لاہور، ملتان، فیصل آباد، لاڑکانہ اور حیدرآباد میں بھی عورت مارچ کا انعقاد کیا گیا تھا۔
اس طرح رواں برس بھی کراچی، لاہور اسلام آباد سمیت کئی شہروں میں ان کا انعقاد کیا جارہا ہے جس میں خواتین کی بڑی تعداد شریک ہے۔
کراچی
کراچی میں عورت مارچ فیریئر ہال کے مقام پر منعقد کیا گیا اور کورونا وائرس کی صورتحال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے منتظمین نے شرکا پر اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز (ایس او پیز) بشمول ماسک پہننا اور سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کے لیے زور دیا۔
کراچی میں عورت مارچ کے منتظمین نے جو مطالبات پیش کیے ان میں پدر شاہی طاقتوں کی جانب سے صنفی بنیادوں پر تشدد، رضاکاروں پر سرکاری تشدد کے خاتمے علاوہ صنفی بنیاد پر جرائم کا منصفانہ اور تیز ٹرائل کرنا شامل ہے۔
دیگر مطالبات میں ریپ متاثرین کے کنوارے پن کے ٹیسٹ، سندھ اور پاکستان کے پولیس اسٹیشنز میں صنفی تشدد کے سیلز کا قیام اور جنسی ہراسانی کا خاتمہ شامل ہے۔
لاہور
لاہور میں عورت مارچ کے سلسلے میں ریلی کا آغاز لاہور پریس کلب سے ہوا جو پنجاب اسمبلی کے سامنے سے ہوتا ہوا پی آئی اے کی عمارت تک پہنچی۔
لاہور کے منشور میں خواتین اور ہیلتھ کیئر ورکرز کی صحت پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے حکومت کی جانب سے بنیادی ضروریات کی فراہمی اور بدسلوکیوں کا شکار وہ خواتین جنہیں ذہنی اور جسمانی دیکھ بھال کی ضرورت ہے ان کے لیے بہتر انفرا اسٹرکچر کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
علاوہ ازیں منشور کی دستاویز میں صحت کے مسائل پر بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا جس میں بریسٹ کینسر، تولیدی صلاحیت، فاررینزک سروسز کے لیے پیسوں کی وصولی (بشمول ریپ متاثرین سے وصولی)، ایچ آئی وی، مفت ادویات تک رسائی، ٹرانسجینڈر ایکٹ 2018 کا نفاذ، صاف پانی، ٹوائلٹ بالخصوص خواتین ہیلتھ ورکرز کا کورونا وائرس سے تحفظ، کم عمری کی شادیوں اور دیگر مسائل شامل ہیں۔
اسلام آباد
اسلام آباد میں بھی بڑی تعداد میں خواتین نے خود کو درپیش مسائل اور حقوق کے تحفظ کے لیے عورت مارچ میں شرکت کی۔
گزشتہ برس اسلام آباد میں عورت مارچ کی صورتحال اس وقت کشیدہ ہوگئی تھی جب اس کی مخالفت میں نکالے جانے والے حیا مارچ کے مرد شرکا نے عورت مارچ کے شرکا پر پتھر پھینکے تھے جس سے ایک فرد زخمی ہوگیا تھا تاہم بعد میں پولیس صورتحال قابو کرنے میں کامیاب رہی تھی۔
منشور
ہر شہر میں عورت مارچ کا اپنا اپنا منشور تھا، کراچی میں صنفی تشدد، لاہور میں ہیلتھ کیئر ورکرز اور خواتین کی صحت جبکہ اسلام آباد میں دیکھ بھال کے بحران کی جانب توجہ دلائی گئی۔
کراچی چیپٹر نے مطالبہ کیا کہ برسر اقتدار طاقتوں کی جانب سے صنفی تشدد ختم کیا جائے، ساتھ ہی ریاست کی حمایت میں تشدد کے ذریعے سماجی کارکنوں، مذہبی گروپوں اور برادریوں کو ہدف بنانے کا سلسلہ بھی بند کیا جائے اور صنفی جرائم کی موثر اور شفاف تحقیقات کی جائے اور مجرمان کا تیزی سے منصفانہ ٹرائل کیا جائے۔
دیگر مطالبات میں ریپ متاثرین کے کنوارے پن کے ٹیسٹ کو قابل سزا جرم بنانا، سندھ اور پورے پاکستان کے تھانوں میں صنفی تشدد رپورٹنگ سیلز کا قیام اور جنسی ہراسانی کا خاتمہ شامل تھے۔
لاہور چیپٹر کے مطالبات میں اس کے منشور کے مطابق ریاست کی طرف سے بنیادی ضروریات پوری کیے جانے اور تشدد و استحصال کی متاثرہ وہ خواتین جنہیں ذہنی و جسمانی دیکھ بھال کی ضرورت ہو انہیں بہتر انفراسٹرکچر کی فراہمی شامل ہیں۔
خواتین واک
علاوہ ازیں کراچی سمیت مختلف شہروں میں جماعت اسلامی خواتین ونگ کے زیر اہتمام عالمی یومِ نسواں کی نسبت سے ‘خواتین واک’ کا اہتمام کیا گیا جس میں خواتین کارکنان شریک ہوئیں۔
کراچی کے پریس کلب پر بڑی تعداد میں جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والی خواتین نے اس واک میں شرکت کی۔
واک میں شرکت کرنے والی خواتین نے جو بینر اٹھا رکھے تھے ان پر ‘شوہر اور بیوی مدِ مقابل نہیں، معاون و مددگار ہیں’، ‘ہمارے خاندانی نظام کی تباہی ہمارے دشمن کا ایجنڈا ہے’ اور ‘مہر وراثت عزت دو مجھ کو گھر پر رہنے دو’ کے نعرے درج تھے۔