کراچی: (سچ خبریں)کراچی چیمبر آف کامرس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسمعٰیل نے کہا کہ ہم نے 3 مہینے تک بجلی کی قیمتیں نہیں بڑھائیں تھیں کیونکہ بہت عرصے سے بجلی کی قیمتیں نہیں بڑھی تھیں اس لیے قیمتوں میں حالیہ اضافہ لوگوں کے لیے دھچکے کا باعث ہے، تاہم ہمیں یقین ہے کہ 3 ماہ بعد بجلی سستی ہوجائے گی، یہ ہمیں پہلے سے ہی معلوم ہے کہ 3 ماہ بعد کمرشل بنیادوں پر اس کی قیمتوں میں کمی آجائے گا۔
مفتاح اسمعٰیل نے کہا کہ کہ ہماری معیشت کا دارومدار درآمدات پر مبنی ہے جبکہ یہ ماڈل ہمارے لیے موزوں نہیں رہا ہے، دنیا کے جن ممالک نے ترقی کی ہے وہ برآمدات پر مبنی معیشت کے ذریعے ہی ممکن ہوئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ اگر ہمارے پاس دنیا کو کچھ دینے کو نہیں تو کچھ لینا بھی نہیں بنتا، اب چادر دیکھ کرہی پاؤں پھیلانا ہوں گے اس لیے ملک میں لگژری گاڑیوں کی درآمد پر پابندی کو ستمبر تک نہیں ہٹائیں گے۔
وفاقی وزیر خزانہ نے خطاب میں کہا کہ ڈالر کی قیمت میں کمی میں، میں نے یا اسٹیٹ بینک نے کوئی مداخلت نہیں کی، ڈالر میری مداخلت کے بعد کم نہیں ہوا بلکہ سپلائی اور ڈیمانڈ کے وجہ سے کم ہوا ہے۔
مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ ایل سیز کی کوئی ادائیگی نہیں روکی، نہ کبھی روکیں گے اور صرف 3 دن میں امپورٹرز کیلئے ایل سی کھل جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب ہم نے بجلی کی پیداوار دگنی کی تب بھی پاکستان میں انڈسٹریل پیداوار اور برآمدات دگنی نہیں ہوئیں، 2011 میں پاکستان میں پونے 25 ارب ڈالر کی برآمدات تھیں اور آج 2022 میں ہم 31 ارب ڈالر تک پہنچ سکے ہیں۔
مفتاح اسمعٰیل نے کہا کہ اب دنیا سے قرض لینے میں مشکل بھی ہوتی ہے اور شرم بھی آتی ہے، اللہ کی مہربانی سے ہم نے آئی ایم ایف کا فنڈنگ پروگرام کرلیا اور فنڈنگ گیپ کی جانب بھی کافی پیش رفت کرلی ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ کل متحدہ عرب امارات نے اعلان کیا ہے کہ وہ پاکستان میں ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کریں گے جس سے ہمیں بہت فائدہ ملے گا، وہ ہمارا دوست ملک ہے اس لیے ہماری مدد کررہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ متحدہ عرب امارات کا 1996 میں ہمیں دیا گیا 45 کروڑ ڈالر کا قرضہ ہم آج تک واپس نہیں کر سکے جبکہ اتنے پیسوں کی ہم سبسڈیاں دیتے رہے ہیں، کبھی کبھی اس سے زیادہ مالیت کی گاڑیاں ہم درآمد کر لیتے ہیں، پھر اس کے بعد کسی سے ادھار لینے جاتے وقت شرم آتی ہے۔
مفتاح اسمعٰیل نے کہا کہ گزشتہ سال ہم نے 80 ارب ڈالر کی درآمدات کیں جبکہ 31 ارب ڈالر کی برآمدات کی ہیں، کاش یہ تناسب اگر الٹ ہوجاتا تو آج مجھے کسی ملک میں جانے کی ضرورت نہ پڑتی۔
انہوں نے کہا کہ ملک کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ساڑھے 17 ارب ڈالر ہے جبکہ تجارتی خسارہ ترسیلات زر کو گھٹانے کے بعد 18 ارب ڈالر ہے۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ اگر آپ اتنا بڑا خسارہ پیدا کرتے ہیں تو روپے پر دباؤ پڑے گا، آج بنگلہ دیش نے پیٹرول کی قیمت 308 روپے فی لیٹر تک بڑھا دی ہےکیونکہ وہ بھی دباؤ میں ہیں، اس وقت پوری دنیا بڑے مشکل حالات کا سامنا کررہی ہے۔
تاجر برادری کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ کو 2 سے 3 ماہ مزید تکلیف رہے گی، میں اس تکلیف کو دور نہیں کر سکتا بس آپ سے معذرت ہی کر سکتا ہوں۔
مفتاح اسمعٰیل نے کہا کہ ہم نے 3 مہینے تک بجلی کی قیمتیں نہیں بڑھائیں تھیں کیونکہ بہت عرصے سے بجلی کی قیمتیں نہیں بڑھی تھیں اس لیے قیمتوں میں حالیہ اضافہ لوگوں کے لیے دھچکے کا باعث ہے، تاہم ہمیں یقین ہے کہ 3 ماہ بعد جلی سستی ہوجائے گی، یہ ہمیں پہلے سے ہی معلوم ہے کہ 3 ماہ بعد کمرشل بنیادوں پر اس کی قیمتوں میں کمی آجائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک ایکسپورٹ پر کام کر رہا ہے، ایک بار پھر کہتا ہو کہ تین ماہ کی تکلیف ہوگی، تین ماہ پاکستان میں امپورٹ کرنا روکنا ہے، یہ سمجھنے کے لیے معاشی امور کا ماہر ہونے کی بجائے میمن بننا پڑے گا۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ہم نے سی پی یو کاروں، موبائل فونز اور گھریلو آلات پر پابندی لگا دی ہے جسے ہم ستمبر تک نہیں ہٹائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ 84 اور 85 سے شروع ہونے والے ایچ ایس کوڈز کے ساتھ آنے والی اشیا کی درآمد پر پابندیاں معقول ہیں، تاہم حکام برآمد کنندگان کی جانب سے مصنوعات کی تیاری کے لیے استعمال ہونے والی اشیا کی نشاندہی پر کام کر رہے ہیں اور ان کی مطلوبہ درآمد کو روکا نہیں جائے گا۔
انہوں نے ایکسچینج کمپنیوں پرپابندی کا مطالبہ غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایکسچینج کمپنیوں کے بغیر پاکستان چلانا بہت مشکل ہوجائےگا، ایکسچینج کمپنیز ہی کی وجہ سے روز ڈالر کی آمد ہوتی ہے جو اسٹیٹ بینک کو روز ڈیکلئیر کیا جاتا ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس میں حکومت اور کاروباری طبقے کو مدمقابل سمجھا جائے تاہم درآمدات کو کم کرنا ایک ضرورت تھی۔
انہوں نے کہا کہا مجھے 3 مہینے دیں، اس کوشش میں ہم سب ایک ساتھ ہیں، مجھے اس ملک کو مسائل سے نجات دلانے کا موقع دیں، انشا اللہ پاکستان دوبارہ درآمدات شروع کر دے گا۔