اسلام آباد: (سچ خبریں) وزیر دفاع خواجہ آصف نے پاکستان تحریک انصاف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر آپ نے سول نافرمانی کرنی ہے تو کرلیں، دھمکیوں سےکام نہیں چلتا۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ میں نے کل بھی اس بات کی تصدیق کی تھی لیکن اب تک باضابطہ مذاکرات شروع نہیں ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ یہ باتیں کہ کمیٹی بن گئی ہے اور یہ ہوگیا ہے، اس سلسلے میں مثبت ردعمل تب ہی آسکتا ہے جب کوئی پیش قدمی ہوگی جب کہ شیر افضل مروت نے جو بات کی وہ خوشگوار ہوا کا جھونکا ہے، پہلی بار ادھر سے خوشگوار ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ تلخی سے بات کریں گے تو تلخی ہی بڑھے گی، گن پوائنٹ پر مذکرات نہیں ہوسکتے، یہ نہیں ہوسکتا کہ حملہ کریں، سول نافرمانی تحریک چلائیں اور مذاکرات بھی ہوں۔
خواجہ آصف نے کہا کہ وہ ضرور اسلام آباد پر حملہ کریں، ان کا حق ہے لیکن خیبرپختونخوا حکومت دیگر مسائل میں الجھی ہوئی ہے، حکومت صوبے میں امن وامان کی صورتحال پر توجہ دے، پاراچنار میں آج بھی آگ نہیں بجھ سکی، پاراچنار کے مسئلے کا پائیدار حل ضروری ہے لیکن ہم سیاستدان ان چیزوں میں الجھے رہیں گے تو یہ مسائل کیسے حل کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری اس جنگ میں نقصان ملک کو ہو رہا ہے، معاملات افہام و تفہیم سے حل ہوتے ہیں، دھمکیوں سے نہیں، سیاستدان معاملات کے حل اور مذاکرات کے لیے سیاسی زبان استعمال کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کہا گیا کہ 12 اموات ہوئیں لیکن کسی نے اناللہ وانا الیہ راجعون تک نہیں پڑھا، مگر لطیف کھوسہ صاحب کہتے ہیں کہ 278 اموات ہوئیں اور اب یہ 12 پر آگئے ہیں لیکن احتجاج کے دوران رینجرز اور پولیس اہلکار بھی تو مارے گئے، انہیں کس نے مارا، ان کی بھی مذمت کی جائے، مذمت میں سلیکشن نہیں ہونی چاہیے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ آج یہ کہتے ہیں کہ جیل میں سہولیات نہیں دی جارہیں، سیاسی ورکر شکایتیں نہیں کرتا، کسی کی منتیں نہیں کرتا، مجھے جیل میں انتہائی خراب حالت میں رکھا گیا لیکن کبھی شکایت نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں دیکھ لیں صرف ایک شخص ہے جس کے خلاف ان کی کابینہ نے آرٹیکل 6 لگایا لیکن یہ نہیں ہوسکتا ماضی کو یکدم فراموش کردیا جائے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ میں مذاکرات کا ماہر نہیں ہوں لیکن ہماری جماعت اور پیپلزپارٹی میں بھی ایسے لوگ ہیں جو اس کی قابلیت رکھتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ تبدیلی ایسی آنی چاہیے کہ ماحول بن سکے لیکن اگر آپ اپنی زبان سے کشیدگی بڑھا رہے ہوں اور یہ توقع رکھیں کہ مذاکرات ہوجائیں تو یہ ممکن نہیں۔
وزیر اعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات تک سسٹم آگے نہیں چل سکتا، سیاسی استحکام سمیت اس کے سوا کوئی حل نہیں کہ سیاسی لوگ بیٹھ کر جمہوری انداز میں مسائل حل کریں۔
انہوں نے کہا کہ شیر افضل مروت نے جو بات کی، اس بات پر وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ یہ ٹھنڈی ہوا کا جھونکا محسوس ہوا ہے، یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے، وزیر دفاع نے یہ بھی کہا کہ میں ایک تلخ بات کو دبا رہا ہوں، تاکہ یہ ماحول خراب نہ ہوجائے۔
رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ شیر افضل مروت نے بتایا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان نے مذاکرات کے لیے کمیٹی بنائی، لیکن کمیٹی کو فعال ہونے نہیں دیا گیا، کچھ دن قبل وزیراعظم شہباز شریف ایوان میں آئے اور سیدھے اپوزیشن کے پاس گئے اور اپنی نشست پر آکر کہا کہ ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہر مسئلے پر بات کی جاسکتی ہے، اس پر عمر ایوب نے جس لہجے میں جواب دیا، میرا خیال ہے شیر افضل کو سب پتا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح 25 نومبر کی رات جب کہا جارہا تھا کہ ڈی چوک کے بجائے آپ سنگجانی جاکر اپنا احتجاج یا جلسہ، جو بھی کرنا ہے کرلیں، تو وہ بات بھی مذاکرات کا ہی حصہ تھی، کہ آپ وہاں چلے جائیں اور یہاں بیٹھ کر بات کرلیں، لیکن اسے تسلیم نہیں کیا گیا۔
رانا ثنااللہ نے مزید کہا یہ بات درست ہے کہ خواہ کسی نے وردی پہنی تھی، یا وردی کے بغیر تھا، اور ان ہنگاموں میں اس کی جان گئی ہے، تو دونوں کے لیے اناللہ وانا الیہ راجعون ہونا چاہیے تھا، لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔