اسلام آباد:(سچ خبریں) وفاقی وزیر تجارت نوید قمر نے کہا ہے کہ یورپی یونین نے پاکستان کو ہائی رسک ممالک کی فہرست سے خارج کر دیا ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر جاری بیان میں وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ پاکستانی کاروباری اداروں اور افراد پر یورپ کے قانونی اور معاشی آپریٹر کی اضافی شرائط لاگو نہیں ہوں گی۔
وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمٰن نے اس پیش رفت پر ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ اس تجارتی اور سفارتی کامیابی کا سہرا وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کو جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ افراتفری میں اچھی خبر یہ ہے کہ یورپی یونین نے پاکستان کو ہائی رسک ممالک کی فہرست سے نکال دیا ہے، اس اہم پیش رفت کے بعد برآمد کنندگان اور تاجروں کو رکاوٹوں کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
واضح رہے کہ ڈان اخبار کی 14 فروری 2019 کی رپورٹ کے مطابق یورپی کمیشن نے پاکستان سمیت ان 23 ممالک کی فہرست جاری کی تھی، جہاں انسدادِ منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے قوانین بہت کمزور ہیں اور ساتھ ہی ہدایت کی گئی کہ ان کمزوریوں پر تیزی سے قابو پایا جائے۔
مزید بتایا گیا تھا کہ فہرست کے اجرا کے بعد یورپی یونین کے انسدادِ منی لانڈرنگ کے قوانین کے ماتحت بینک اور دیگر ادارے، مالی معاملات میں صارفین اور دیگر مالیاتی اداروں کو منسلک کر کے نگرانی کو مؤثر بنانے کے پابند ہوں گے تاکہ رقم کی کسی مشتبہ منتقلی کی نشاندہی ہوسکے۔
مذکورہ فہرست جولائی 2018 میں جاری کی گئی انسدادِ منی لانڈرنگ کی پانچویں ہدایات اور 54 ترجیحی اختیارات، جو یورپی کمیشن نے رکن ممالک کی مشاورت سے قائم کیے تھے، کے تناظر میں نئے اور سخت طریقہ کار کے تحت مرتب کی گئی تھی۔
خیال رہے کہ 15 نومبر 2022 کو برطانیہ نے بھی باضابطہ طور پر پاکستان کو انتہائی خطرات کے حامل ممالک کی فہرست سے نکال دیا تھا۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر جاری بیان میں وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اچھی خبر ہے کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے ایکشن پلان کی جلد تکمیل پر برطانیہ نے پاکستان کو ہائی رسک تھرڈ ممالک (انتہائی خطرات کے حامل) کی فہرست سے خارج کر دیا ہے۔
اسی طرح 21 اکتوبر 2022 کو منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے ہونے والی فنڈنگ پر نظر رکھنے والے عالمی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان کو گرے لسٹ سے خارج کردیا تھا۔
ایف اے ٹی ایف کے صدر ٹی راجا کمار نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ پاکستان 2018 سے گرے لسٹ میں تھا، اس وقت دو ایکشن پلان تھے، پاکستانی حکام بڑی جدوجہد کے بعد تمام ایکشن پلان پر بڑی حد تک عمل درآمد کرچکے ہیں۔