تاہم اس شوکاز نوٹس کا جواب دینے کے بجائے پی ٹی آئی نے نوٹس کالعدم قرار دینے اور الیکشن کمیشن کی کمیٹی سمیت ان اہم گواہوں سے جرح کی درخواست کی تھی جنہوں نے پارٹی اکاؤنٹس اور بینک افسران کی جانچ پڑتال کی تھی، تاہم الیکشن کمیشن نے 22 مارچ کو پی ٹی کی یہ درخواست مسترد کر دی تھی۔
سرکاری وکیل نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کو بتایا کہ وفاقی پولیس نے چیئرمین پی ٹی آئی کو 28 فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) میں نامزد کیا گیا جبکہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے بھی ایک کیس میں ان کے خلاف مقدمہ درج کیا۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف اسلام آباد کے تھانوں میں درج مقدمات کی تفصیلات طلب کرنے کی درخواست پر سماعت کی۔
عدالت میں پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق 28 ایف آئی آر میں سے ایک کو خارج کر دیا گیا جبکہ 7 مقدمات میں تفتیش کی جا رہی ہے اور 20 مقدمات کی سماعت جاری ہے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ ایف آئی اے نے عمران خان کے خلاف فارن ایکسچینج ایکٹ کے تحت ایک مقدمہ درج کر رکھا ہے اور یہ معاملہ بینکوں میں جرائم سے متعلق خصوصی عدالت میں زیر التوا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پولیس نے سابق وزیر اعظم کے خلاف 15 مقدمات ایک ہی دن گزشتہ برس 26 مئی کو درج کیے تھے۔
پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے دوران تشدد کے سلسلے میں عمران خان کے خلاف 25 مئی کو ایف آئی آر درج کی گئی تھی، رپورٹ کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف پولیس نے 26 مقدمات گزشتہ دو برسوں کے اندر درج کیے۔
پی ٹی آئی کے سربراہ کے خلاف 2014 میں پارٹی کے دھرنے کے سلسلے میں پہلے ہی 2 مقدمات درج کیے گئے تھے۔
پی ٹی آئی کے وکیل فیصل فرید نے عدالت کو بتایا کہ پولیس نے عمران خان کو کہا ہے کہ ان تمام کیسز کی تفتیش میں شامل ہوں۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے انسپکٹر جنرل اور وفاقی حکومت کو معاملے کو دیکھنے کی ہدایت کے ساتھ درخواست نمٹا دی۔
دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس ارباب محمد طاہر نے سینیٹر اعظم سواتی اور پی ٹی آئی رہنما علی امین گنڈاپور کی جانب سے دائر کی گئی ایک جیسی درخواستوں پر پولیس کو نوٹس جاری کرتے ہوئے وفاقی دارالحکومت میں ان کے خلاف درج مقدمات کی تفصیلات طلب کر لیں۔
عدالت نے پولیس سے 31 مارچ کو رپورٹ بھی طلب کرلی۔