اسلام آباد: (سچ خبریں) پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ مئی کے آخر تک 26 کھرب 50 ارب روپے تک پہنچ گیا جو گزشتہ مالی سال کے آغاز میں 22 کھرب 50 ارب روپے تھا یعنی 11 ماہ میں 3 کھرب 93 ارب روپے یا 18 فیصد کا اضافہ ہوا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق وزارت توانائی کے پاور ڈویژن کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ یہ صورتحال مالی سال 2022 کے اعداد و شمار کے بالکل برعکس تھی جب گردشی قرضے میں 27 ارب روپے کی کمی ہوئی تھی، یہ قرض اُس مالی سال کے ابتدا میں 22 کھرب 80 ارب روپے تھا اور سال کے اختتام پر 22 کھرب 50 ارب روپے ہوگیا تھا۔
ایک دستاویز کے مطابق مالی سال 22-2021 میں پاور سیکٹر کے واجبات 13 کھرب 50 ارب روپے، اس کے بعد بجلی کی پیداواری کمپنیوں (جینکوز) کے ایک کھرب ایک ارب روپے اور پاکستان ہولڈنگ لمیٹڈ (پی ایچ ایل) کے قرض کے طور پر 8 کھرب روپے قابل ادائیگی تھے۔
تاہم مالی سال 2023 میں پاور پروڈیوسرز کو قابل ادا رقم میں بڑے پیمانے پر اضافہ دیکھنے میں آیا اور یہ 17 کھرب 70 ارب روپے تک پہنچ گئیں جب کہ جینکوز کے واجبات بڑھ کر ایک کھرب 10 ارب روپے تک پہنچ گئے، تاہم پاکستان ہولڈنگ لمیٹڈ کا قرضہ 765 ارب روپے تک کم ہوگیا۔
مالی سال 2022 میں بجٹ میں شامل لیکن غیر جاری کردہ سبسڈیز میں 12 ارب روپے کی کمی کی گئی تھی لیکن 23-2022 کے ابتدائی 11 مہینوں (جولائی سے مئی تک) میں انہیں بڑھا کر 72 ارب روپے کر دیا گیا تھا۔
اسی طرح مالی سال 2022 میں غیر بجٹ شدہ یا غیر دعویٰ کردہ سبسڈیز میں ایک کھرب 33 ارب روپے کی کمی کی گئی تھی لیکن جولائی تا مئی تک ان میں 34 ارب روپے کا اضافہ کیا گیا تھا۔
سال 22-2021 میں تاخیر سے ادائیگی پر آزاد پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے سود کے چارجز بڑھ کر ایک کھرب 5 ارب روپے ہو گئے تھے لیکن مئی کے آخر تک کم ہو کر 87 ارب روپے رہ گئے۔
مالی سال 22-2021 میں پاکستان ہولڈنگ لمیٹڈ کی جانب سے آئی پی پیز کے دعووں پر ادا کردہ سود 29 ارب روپے تک بڑھ گیا جو مزید بڑھ کر 58 ارب روپے تک پہنچ گیا تھا۔
اس کے علاوہ گزشتہ مالی سال 11 ماہ کے عرصے میں زیر التوا پیداواری لاگت، سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹس اور فیول چارج ایڈجسٹمنٹس، 4 کھرب 14 ارب روپے سے کم ہو کر ایک کھرب 71 ارب روپے ہوگئی تھیں۔
دوسری جانب کے-الیکٹرک کے زیر التوا واجبات ایک کھرب 7 ارب روپے سے کم ہو کر 57 ارب روپے ہو گئے اور پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں (ڈسکوز) کی نا اہلی کے باعث ہونے والے نقصانات بھی ایک کھرب 33 ارب روپے سے گھٹ کر ایک کھرب 25 ارب روپے ہوگئے۔