لاہور: (سچ خبریں) عوام پاکستان پارٹی کے کنونیئر و سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ خرم دستگیر اور میاں جاوید لطیف کو اپنی جماعت میں نہیں لے سکتا تاہم اگر خواجہ سعد رفیق چاہیں تو ان کا خیرمقدم کیا جائے گا،خرم دستگیر اور میاں جاوید لطیف کو صرف اس وجہ سے اپنی پارٹی میں نہیں لے سکتا کہ وہ ناراض ہیں ہاں اگر وہ دونوں یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری پارٹی اصولوں پر کھڑی ہے تب انہیں لیا جاسکتا ہے۔اڈیالہ جیل جا کر عمران خان سے ملنے کے لیے تیار ہوں، ان سے کہوں گا کہ ملکی مفاد کی خاطر بیٹھیں اور بات کریں،21 اکتوبر 2023 کو نواز شریف کی لندن سے وطن واپسی پر خود استقبال کے لیے نہیں گیا، اس روز میں لاہور میں ایک دوست کی شادی پر گیا تھا،اگر جھوٹ بولنا ہوتا تو کہہ دیتا کہ ٹریفک جام کی وجہ سے پہنچ نہیں سکا۔
ایک انٹر ویو میں انہوں نے کہا کہ خرم دستگیر کو ایک برس سے نواز شریف سے ملاقات کا وقت نہ ملنے کی شکایت نہیں کرنی چاہیے تھی کیونکہ ایسی باتیں پارٹی کے اندر کرنی چاہئیںمیڈیا پر نہیں،ہوسکتا ہے نواز شریف اور خرم دستگیر ناراض ہوں یا ان کے پاس ملاقات کا وقت نہ ہو۔ایک سوال کے جواب میں شاہد خاقان عباسی نے کہاکہ سب سیاسی جماعتوں کو مل کر بیٹھنا چاہیے، میں اڈیالہ جیل جا کر عمران خان سے ملنے کے لیے بھی تیار ہوں، ان سے کہوں گا کہ ملکی مفاد کی خاطر بیٹھیں اور بات کریں۔
انہوں نے کہاکہ میرا شہباز شریف کی سوچ سے اتفاق نہیں لیکن ان سے ملنے کے لیے بھی تیار ہوں، اس وقت کوئی ملک کے لیے نہیں سوچ رہا، سب کو اپنا اقتدار عزیز ہے۔شاہد خاقان عباسی نے کہاکہ میں نے 2023 میں نواز شریف کو بتادیا تھا کہ مجھے آپ کی پالیسی سے اتفاق نہیں کیونکہ آپ نے ووٹ کو عزت دو کا نعرہ چھوڑ کر اقتدار کو گلے لگا لیا ہے، اس لیے اب مسلم لیگ (ن)کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ نہیں لوں گا۔
اپنے حلقے میں مسلم لیگ (ن)میں نے ہی بنائی، جب پارٹی نے پوچھا کہ حلقے سے کس کو الیکشن لڑانا چاہیے تو میں نے نام دیا تھا لیکن پھر اس کو ٹکٹ نہیں دیا گیا۔انہوں نے کہاکہ مجھے الیکشن سے قبل ہی اندازہ تھا کہ ملک میں بہت بڑی خرابی ہونے جارہی ہے اسی لیے انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔انہوںنے کہا کہ 21 اکتوبر 2023 کو نواز شریف کی لندن سے وطن واپسی پر خود استقبال کے لیے نہیں گیا، اس روز میں لاہور میں ایک دوست کی شادی پر گیا تھا،اگر جھوٹ بولنا ہوتا تو کہہ دیتا کہ ٹریفک جام کی وجہ سے پہنچ نہیں سکا، مجھے پارٹی کے کچھ لوگوں نے اسلام آباد ایئرپورٹ پر نواز شریف کا استقبال کرنے کے لیے کہا لیکن میں نے انکار کردیا۔
انہوں نے کہا کہ جب پی ڈی ایم کی حکومت بنی تھی تو میں نے نواز شریف کو کہاکہ وطن واپس آکر ہائیکورٹ میں پیش ہوجائیں لیکن انہوں نے کسی اور کی بات پر عمل کیا۔میں نے نواز شریف کو بتادیا تھا کہ جب پارٹی میں جنریشن تبدیلی آئے گی تو میں ساتھ نہیں چل سکوں گا، پھر جب مریم نواز کو پارٹی کا سینئر نائب صدر بنایا گیا تو میں نے اگلے روز ہی اپنا استعفیٰ پارٹی صدر شہباز شریف کو بھیج دیا تھا۔
انہوں نے کہاکہ اسحاق ڈار نے بطور وزیر خزانہ میرے ساتھ کام کیا، اپوزیشن میں بھی وہ متحرک رہے لیکن جس طریقے سے مفتاح اسماعیل کو وزارت سے ہٹایا گیا وہ درست نہیں تھا، ملک کے جو اس وقت حالات تھے ان میں مفتاح اسماعیل بہترین وزیر خزانہ تھے، جبکہ موجودہ حالات میں اسحاق ڈار موزوں ہیں۔انہوںنے کہاکہ مریم نواز کی حکومت سے میرا کوئی لینا دینا نہیں ، مگر مجھے دکھ ہے کہ مری میں امن جرگے پر دہشتگردی کی دفعات کے تحت پرچے کاٹے گئے ہیں، ویسے مسلم لیگ (ن)کا ایسا رویہ نہیں ہوتا تھا، اگر وزیراعلی کی جانب سے جھوٹی ایف آئی آرز کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی تو ذمہ داری ان پر عائد ہوگی۔
انہوںنے کہا کہ مجھ پر متعدد مقدمات درج ہیں، کہیں پر جیل توڑنے تو کہیں پر دہشتگردی کا مقدمہ ہے لیکن میں نے کبھی ضمانت نہیں کروائی،جب جھوٹا مقدمہ بنائیں گے تو پھر کیا گرفتاری ہونی ہے۔انہوں نے کہاکہ 2018 کے انتخابات سے قبل میرے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد نے مجھے آکر کہاکہ سر آپ لوگ الیکشن ہار جائیں گے۔8 فروری کو ملک میں جمہوری انقلاب آیا، لوگوں کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ ان کے امیدوار کا انتخابی نشان کیا ہے لیکن پھر بھی انہوں نے ڈھونڈ ڈھونڈ کر ووٹ دیا۔
انہوں نے کہاکہ عمران خان کا مستقبل عوام کے ہاتھ میں ہے، سیاسی طور پر عوام کی حمایت بانی پی ٹی آئی کو حاصل ہے، چاہے کوئی اس کو تسلیم کرے یا نہ کرے۔شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ جنرل (ر)فیض حمید کے خلاف کارروائی فوج کا اندرونی معاملہ ہے، جنرل فیض کو پتا تھا کہ ریڈلائن کیا ہے اور کہاں کارروائی ہوسکتی ہے، ان کے خلاف کارروائی کے بعد اب ہر فوجی کو سوچنا ہوگا،کورٹ مارشل کے ہر کیس میں تو نہیں لیکن ایسے قوانین ہیں کہ پھانسی کی سزا بھی ہوسکتی ہے۔شاہد خاقان عباسی نے کہاکہ عمران خان کے معاملے پر امریکہ کا دبائو بڑھ سکتا ہے، ماضی میں نواز شریف کو بھی پاکستان سے نکلوانے میں بل کلنٹن نے کردار ادا کیا تھا۔