اسلام آباد:(سچ خبریں) پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کے مرکزی رہنما علی محمد خان کو عدالتی تحویل میں دے دیا گیا اور مجسٹریٹ نے اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ حکام کی جانب سے ان کے 14 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کردی۔
سابق وزیر کو منگل کو ایک اور کرپشن کیس میں مردان کی خصوصی عدالت سے رہائی کے فوراً بعد چھٹی بار گرفتار کیا گیا تھا۔
بدھ کو جب حکام نے انہیں جسمانی ریمانڈ کے لیے جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا تو عدالت نے درخواست مسترد کرتے ہوئے پی ٹی او رہنما کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا، پی ٹی آئی رہنما کے خلاف درج مقدمے کے سلسلے میں اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کے حکام نے انہیں حراست میں لیا تھا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ صرف چار روز قبل حکومت نے پشاور ہائی کورٹ کو آگاہ کیا تھا کہ علی محمد خان کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں ہے۔
ان پر عائد تازہ الزامات کے مطابق سابق وزیر مملکت اور کئی دیگر سابق اراکین اسمبلی نے ترقیاتی اسکیموں میں اپنے من پسند افراد کو ٹھیکے دے کر بے ضابطگیاں کیں۔
پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما کو اس سے قبل اینٹی کرپشن عدالت کے سینئر جج بابر علی خان نے ان کے اور مردان سے تعلق رکھنے والے پارٹی کے دیگر سابق اراکین اسمبلی کے خلاف محکمہ ماہی پروری میں ’غیر قانونی تقرریوں‘ کے مقدمے میں 80 ہزار روپے کے ضمانتی مچلکے پر ضمانت دی تھی۔
ان کے وکیل علی زمان نے کہا کہ مردان جیل میں موجود علی محمد خان کو اینٹی کرپشن حکام نے عدالت کے حکم پر رہا کرنے کے بعد دوبارہ حراست میں لے لیا ہے اورحکومت نے اس قانون کا مذاق اڑایا۔
چار دن پہلے حکومت نے پشاور ہائی کورٹ کو آگاہ کیا تھا کہ اس کے مؤکل کے خلاف کوئی اور مقدمہ زیر التوا نہیں ہے لیکن پھر بھی اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ نے سوچ کرنیا مقدمہ درج کر لیا کہ انہیں ثبوت نہ ہونے پر رہا کردیا جائے گا۔
اس سے قبل مئی میں علی محمد خان کو اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر کے حکم پر مینٹیننس آف پبلک آرڈر(ایم پی او) آرڈیننس کے تحت اسلام آباد سے گرفتار کیا گیا تھا۔
ایم پی او کے تحت راولپنڈی کے ڈپٹی کمشنر کے حکم پر دوبارہ گرفتاری سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر انہیں رہا کیا گیا، بعد ازاں، انہیں پشاور کے ڈپٹی کمشنر کے حکم پر ایم پی او کے تحت اور پھر مردان کے محکمہ انسداد دہشت گردی نے 9 مئی کے تشدد کیس کے سلسلے میں دوبارہ گرفتار کر لیا تھا۔