کرم ایجنسی: (سچ خبریں) ضلع کرم میں کئی دن تک جاری مسلح تصادم کے نتیجے میں 100 سے زائد اموات کے بعد سیاسی جرگے کی مداخلت سے علاقے میں مکمل جنگ بندی کے بعد معمولات زندگی بحال ہونا شروع ہوگئے ہیں اور آج علاقے میں اسکول بھی دوبارہ سے کھل گئے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق کرم کے ڈپٹی کمشنر جاویداللہ محسود نے بتایا ہے کہ سیاسی جرگے کی جانب سے جنگ بندی کے بعد علاقے کے تمام اسکول اور کالجز کھل گئے ہیں۔
اس کے علاوہ موبائل فون سروس بھی بحال ہونا شروع ہوگئی ہیں جو ضلع میں مسلح تصادم کے نتیجے میں بند کردی گئی تھیں۔
تاہم فریقین کے درمیان جنگ بندی کے باوجود پاراچنار اور اپر کرم کو صوبائی دارالحکومت پشاور سے ملانے والی ہائی وے تاحال ٹریفک کے لیے بند ہے۔
یاد رہے کہ 21 نومبر کو ضلع کرم کے علاقے اپر دیر میں اسی ہائی وے پر ایک گروپ کی جانب سے مسافر گاڑیوں پر فائرنگ کرکے مسلح فسادات کی ابتدا کی تھی، جس کے بعد سے ہائی وے کو ٹریفک کے لیے بند کردیا گیا تھا۔
اس واقعے کے بعد دونوں فریقین کے درمیان فائرنگ کا یہ سلسلہ جاری رہا، پہلے دن دونوں اطراف سے فائرنگ کے نتیجے میں مجموعی طور پر 43 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔
سڑکوں کی بندش سے ضلع میں کھانے پینے کی اشیا اور دیگر روزمرہ استعمال کی اشیا کی شدید قلت پیدا ہوگئی۔
کرم کے ڈپٹی کمشنر محسود نے کہا ہے کہ فریقین نے ایک دوسرے پر حملہ کرنے کے لیے استعمال ہونے والی خندقوں کو خالی کرا لیا ہے جن پر سیکیورٹی فورسز اور پولیس نے قبضہ کرلیا ہے۔
وزیراعلی خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور سے کرم کے معاملے پر قائم گرینڈ جرگے کے ارکان نے ملاقات کی اور کرم کے مسئلے کے حل کے لیے باضابطہ مذاکرات کے آغاز اور دیگر معاملات پر تبادلہ خیال کیا۔
جرگہ ارکان نے امن کے لیے صوبائی حکومت کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی اور اراکین نے جرگے کے ذریعے پر امن حل کرنے کے لیے وزیر اعلی کی کوشش کو بھی سراہا۔
علی امین گنڈاپور نے واضح کیا کہ صوبائی حکومت مذاکرات کے لیے تمام سہولیات اور تعاون فراہم کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ امید ہے گرینڈ جرگے کے ذریعے کرم کے معاملے کا پرامن اور پائیدار حل نکل آئے گا، گرینڈ جرگہ آئندہ چند روز میں کرم کا دورہ کرکے فریقین سے بات چیت شروع کرے گا۔
وزیر اعلی نے کرم معاملے کےحل کے لیے صوبائی حکومت کے ساتھ تعاون کرنے پر جرگہ اراکین کا شکریہ ادا کیا۔