سندھ:(سچ خبریں) سندھ پولیس کے کاؤنٹر ٹیررزم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے 3 اہلکاروں کے خلاف پنجاب سے تعلق رکھنے والے تاجر کو غیر قانونی طور پر قید میں رکھنے کے الزام میں مقدمہ درج کرکے گرفتار کرلیا گیا۔
ایس ایس پی سی ٹی ڈی (انویسٹی گیشن) بشیر احمد بروہی نے بتایا کہ تین اہلکاروں مظہر حسین بروہی، شعیب کبیر اور محمد احسن نے تاجر کو ہنڈی/حوالہ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے نیٹ ورک میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کی آڑ میں ’رقم بٹورنے‘ کے لیے حراست میں لیا۔
انہوں نے ڈان کو بتایا کہ زیر حراست تاجر کو رہا کرا لیا گیا ہے اور تینوں ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تاجر حاجی محمد اسلم کی شکایت پر تینوں اہلکاروں کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 342 اور 34 کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔
ایس ایس پی نے بتایا کہ حاجی محمد اسلم کا تعلق اوکاڑہ سے ہے، ’بے گناہ‘ تاجر کو غیر قانونی طور پر حراست میں لیا گیا تھا۔
ایس ایس پی نے بتایا کہ تاجر اپنے کزن محمد وقاص کے ساتھ کاروبار کے سلسلے میں کراچی آئے تھے، ہفتے کے روز صبح 9 بجے کے قریب انہوں نے محسوس کیا کہ وقاص غائب ہے اور اس کا موبائل فون بھی نہیں مل رہا۔
انہوں نے سی ٹی ڈی سول لائنز کا دورہ کیا جہاں ان کی ملاقات ایس ایچ او انسپکٹر خواجہ امداد علی سے ہوئی جنہوں نے اپنے عملے سے لاپتا شخص کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔
ایس ایس پی نے بتایا کہ بعد ازاں یہ معلوم ہوا کہ اسسٹنٹ سب انسپکٹر مظہر حسین بروہی، شعیب کبیر اور محمد احسن نے وقاص کو کوئی ایف آئی آر درج کیے بغیر یا روزنامچے میں کوئی اندراج کیے بغیر ایک کمرے میں رکھا تھا۔
اس اقدام میں ملوث تینوں اہلکاروں کو حراست میں لے لیا گیا اور ان کے خلاف غیر قانونی حراست میں رکھنے کا مقدمہ درج کیا گیا ہے، جب کہ حاجی اسلم نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ وہ گرفتار پولیس اہلکاروں کے خلاف قانونی کارروائی چاہتے ہیں۔
دوسری جانب پولیس نے دعویٰ کیا کہ کراچی پریس کلب کے باہر پولیس کی مبینہ بدتمیزی کے خلاف ہفتے کے روز اپنی موٹر سائیکل کو آگ لگانے والا شخص کسی ممنوعہ چیز کے زیر اثر تھا اور اس نے کینٹ ریلوے اسٹیشن کے قریب ایک ہوٹل میں مشکوک افراد کی موجودگی کے بارے میں مددگار 15 کے سامنے غلط بیانی کی تھی۔
شہری کی شناخت ہیریسن کے نام سے ہوئی جس نے ہفتے کے روز کراچی پریس کلب کے باہر اپنی موٹر سائیکل کو آگ لگا دی، سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی ویڈیو میں اس نے کہا کہ اس نے پولیس تشدد کے خلاف بطور احتجاج اپنی موٹر سائیکل کو آگ لگائی، اس نے دعویٰ کیا کہ اس نے پولیس کو ’مشکوک افراد‘ کے بارے میں اطلاع دی لیکن پولیس نے اسے مارا۔
واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے ایس ایس پی ساؤتھ شیراز نذیر نے معاملے کی انکوائری کا حکم دیا، اس دوران آرٹلری تھانہ پولیس نے اس شخص کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لے لیا۔
انکوائری سے واقف ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان کو بتایا کہ ہیریسن نے 15 مدد گار پولیس کو مشکوک افراد کے بارے میں اطلاع دی جس پر پولیس نے فوری کارروائی کی اور ہفتے کے روز کینٹ اسٹیشن کے قریب ہوٹل پہنچی جہاں معلوم ہوا کہ دونوں افراد باپ بیٹے ہیں جو پنجاب سے ٹرین کے ذریعے یہاں پہنچے اور ہوٹل میں قیام پذیر تھے۔
افسر نے مزید بتایا کہ وہ شہری پولیس کے ہمراہ باپ بیٹے کے کمرے میں داخل ہوا جہاں اس نے گالم گلوچ کی، ہوٹل مالک کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے پولیس انکوائری میں کہا گیا کہ شہری نے مدگار 15 پولیس کے ساتھ بھی گرما گرم بحث کی۔
انکوائری کے مطابق ابتدائی تفتیش سے معلوم ہوا کہ وہ ممنوعہ اشیا کے زیر اثر تھا، پولیس نے گرفتار شخص کی والدہ کو بلایا جنہوں نے اپنے بیٹے کے رویے پر افسوس کا اظہار کیا، بعد ازاں نوجوان کو اس کی والدہ کے حوالے کر دیا گیا۔